بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

میڈیا کا ”رنگین اسلام“ (دوسری قسط)

میڈیا کا ”رنگین اسلام“



زیر نظرمضمون گزشتہ ماہ کے ”بینات “میں ”ٹی وی چینلوں کا رنگین اسلام“کے عنوان سے چھپنے والے مضمون ہی کا تسلسل ہے ، ”روشن خیال“اور”دینی توازن واعتدال کی سمجھ“ رکھنے والے حضرات اسے شاید راقم کی”شدت پسندی“یا ”دور حاضرکے تقاضوں سے نا واقفیت“سے ہی تعبیر کریں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسلام اور اسلامی تعلیمات حاضر وغائب ،ماضی ومستقبل کی تمام قیود سے آزاد ہیں۔ مسلمہ محرمات شرعیہ کو حاضر وغائب کی تفریق سے نہیں بدلا جاسکتا،اور نہ ہی اپنے نفس کی سہولت کے لیے محرّمات میں کسی قسم کی کوئی گنجائش پیدا کی جاسکتی ہے ، رہی بات اس قول کی جس میں فرمایا گیا ہے کہ:”من لم یعرف عصرأو أھل زمانہ فہو جاہل “تو اس سے مراد یہ ہرگز نہیں کہ حرام یا مشتبہ اشیاء میں ”عصر حاضرکے تقاضوں“یا”عوام الناس کے ابتلاء“کا لاحقہ لگا کرلچک اور ڈھیل والا رویہ اختیار کیا جائے ،بلکہ ہر زمانے کے مسائل کا جاننا صرف اس لیے ضروری ہے تاکہ اس کی کوکھ سے جنم لینے والے نت نئے فتنوں کا انسداد کیا جاسکے۔

بعض ساتھیوں نے کہا کہ اگرصحیح مستند علماء اور دین کا درد رکھنے والے حضرات ٹی وی پر آکر صحیح دینی نقطہٴ نظر پیش نہیں کریں گے تولازمی بات ہے کہ” غامدی صفت“ جیسے حضرات ہی دین کے عنوان سے رونما ہوں گے ،لیکن یہ بات میری ناقص بلکہ ”جذباتی فہم“ سے بالا تر ہے کہ ایک چیز جس کا مقصد تخلیق ہی شرکے لیے ہوا ہو اس سے خیر کی نشر واشاعت کی امید کیسے رکھی جاسکتی ہے ؟شر کی آگ کے اس سمند ر میں خیر کے موتی کی جستجو کے لیے غوطہ زن ہونا اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالنے سے زیادہ کچھ نہیں، مشہور منطقی اصول ہے کہ نتیجہ ہمیشہ اخس وارذل کے تابع ہوتا ہے ،یعنی شر کی اس کثرت میں خیر سے بھی شر ہی پھوٹنے کے امکانات ہیں،اس موقع پراپنے اساتذہٴ کرام سے سنا ہوامحدث العصر حضرت بنوریؒ کا وہ تاریخی جملہ یاد آرہا ہے کہ ”یوسف بنوری حرام اور غیر شرعی چیزوں سے دین پھیلانے کا مکلف نہیں“ ۔

جہاں تک علماء کرام کے ٹی وی پرتشریف نہ لانے کی بات ہے تو اس سے راقم کی مراد مطلقا یہ نہیں کہ ٹی وی پر بالکل بھی”جلوہ افروز“ نہیں ہونا چاہیے ، بلکہ حدود آرڈیننس ، لال مسجد اور جامعہ حفصہ جیسے حساس اور سنگین معاملات اس سے مستثنی ہیں ،ان جیسے نازک حالات میں اپنے موقف کی صحیح وضاحت اور پروپیگنڈے کے خاتمے کے لیے ٹی وی پر اضطراری طور پربدرجہ مجبوری آیا جاسکتا ہے ،لیکن جو چیز سب سے زیادہ خطرناک اور بظاہر بڑی خوش نما دکھائی دے رہی ہے، وہ اسلام اور مذہب سے متعلق وہ مکالمے اور مباحثے یا سوال وجواب کے وہ پروگرام ہیں جس کی منظر کشی اس طرح کی جاتی ہے کہ ایک طرف ”مجبورو لاچار“ عالم دین ان ”غنڈے نما لا دین مجتہدوں“کے ہاتھوں بے بس نظر آتا ہے، جن کے پاس دلائل کی میز پر اپنی کھوٹی عقل پر اعتماد کے علاوہ اور کوئی دلیل نہیں ہوتی،جن کے نزدیک قرآن وسنت اور اجماع وقیاس کی حیثیت تاریخی ڈھکوسلوں سے زیادہ نہیں،جن لوگوں نے آزادی اظہار رائے کے نام پر دین کو تختہٴ مشق بنا لیا ہے ، آزادی اظہار رائے کی مغربی اصطلاح سے یہی مراد ہے کہ ہر فرد و بشر کو آزادی ہے کہ وہ دین کے معاملات، عبادات، عقائداور فقہ پر گفتگو کرسکے۔ خواہ وہ اس کی اہلیت، قابلیت اور علمیت کا حامل ہو یا نہ ہو۔سوچنے کی بات ہے کہ کیا ٹی وی والے سائنس، معاشیات، عالمی حالات کے کسی پروگرام میں کسی اداکار یا اداکارہ یا فن سے غیر متعلق آدمی کوکبھی شریک کرتے ہیں؟! صرف مذہبی ودینی پروگرام میں مذہب سے لاتعلق غیر ماہرین کی شرکت کا مطلب مذہب کو مذاق بنانے کے سوااور کیا ہے؟ وہ لوگ جو آج کے عام معاشرے میں بھی ناپسندیدہ، حقیر اور بے توقیر سمجھے جاتے ہیں، ان کو ٹی وی پر دینی مباحثوں اور مذاکروں میں مدعو کیا جاتا ہے ، مکالمہ اور آزادی اظہار رائے کا یہ بھی مقصد نظر آتا ہے کہ ہر ایرا غیرا جو دین اور فقہ اسلامی کی الف بے نہیں جانتا دین پر اعتراضات اٹھا ئے اور علماء کرام ان کے جواب دیتے رہیں،مثال کے طور پر جب مخلوط میراتھن دوڑ کا مسئلہ در پیش ہوا تو اسی قسم کے مباحثوں میں بار بار یہ سوال دہرایا گیا کہ آخر میراتھن دوڑ میں کیا حرج ہے؟ آخر حج و عمرے کے موقع پر طواف کعبہ کے وقت بھی تو عورتیں دوڑتی ہیں، حضرت ہاجرہ بھی تو پانی کی تلاش میں دوڑ رہی تھیں، پستیٴ فکر کی انتہا یہ ہے کہ یونان سے نکلنے والی میراتھن دوڑ کو حج و عمرہ کی مقدس ترین عبادات کے مناسک سے جوڑ دیا گیا ،آزادی اظہار رائے اور مکالمے کی مغربی اصطلاح کا صرف اور صرف یہی مطلب ہے کہ دین کو حقیر ٹھہرایا جائے اور رائے کی آزادی کے نام پرسوال اور استفسار کی صورت میں ہر ایک کو اعتراض کا موقع دیا جائے، حالانکہ اعتراض اور استفسار میں فرق ہے،استفسار لاعلمی سے علم کا سفر ہے، استفسار کا مقصد الجھن کو حل کرناہے، اسلام میں الجھن دور کرنے کے لیے استفسار کی اجازت ہے لیکن اعتراض کرنے کی نہیں، اعتراض کا مقصد اپنے علم پر غرور اور دین کو غلط سمجھنا ہے، ہمارا دینی طبقہ ان مواصلاتی مباحث کی ماہیت و حقیقت سے بے خبر ہے، سادہ لوح دین دار لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم دین کی خدمت کرہے ہیں ،گمراہ لوگوں کو سمجھارہے ہیں ،ٹی وی کے ذریعے دین کی نشرو اشاعت کررہے ہیں ، لیکن وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اس ٹی وی نے دین کو ہنسی مذاق بنا دیا ہے اور اس سے زیادہ مضحکہ خیز صورت حال یہ ہے کہ علماء کرام دینی فریضہ سمجھتے ہوئے ٹی وی چینلوں پر اپنے وجود کا احساس دلا رہے ہیں، جہاں سے ان کا اٹھ جانا ضروری ہے ،علماء کا مذاکرہ اور مباحثہ علماء سے ہو تو کوئی حرج نہیں ،لیکن علماء کے مذاکرے اور مکالمے جدیدیت پسند مفکرین ،کسی شوبزنس کی شخصیت، سیکولر دانشوروں اور ادھر ادھر سے بلائے گئے نام نہاد شخصیات سے کرائے جارہے ہیں جوضروریات دین کو سرے سے تسلیم ہی نہیں کرتے اور اسلام کے مسلمہ عقائد وافکار کے منکر ہیں ،مکالمہ برابر کی سطح پر ہوتا ہے ،بازار کے لوگوں سے نہیں،مکالمہ اپنی سطح کے فرد سے ہوتا ہے، تاریخ ایسی حماقت کبھی برداشت نہیں کرسکتی کہ دین ومذہب جیسے حساس موضوع سے لاتعلق فرد کو اس موضوع پر گفتگو کے لیے بٹھا دیا جائے۔

مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آخر میں ”آپ کے مسائل اور ان کے حل “کی ساتویں جلد سے حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہیدرحمہ اللہ کے میڈیا اور ٹی وی کے ذریعے دین اسلام کی دعوت وتبلیغ سے متعلق چند مختصر مگر پر اثر جوابات نقل کردیے جائیں جو مختلف مواقع پر آپ نے سائلین کو دیے ،یہ جوابات روزنامہ جنگ کے مشہور سلسلے ”آپ کے مسائل اور ان کا حل “ میں شائع ہوئے اور ”خیر الکلام ما قلّ ودلّ “ کا بہترین مصداق ہیں۔ چنانچہ حضرت شہیدؒ لکھتے ہیں:

[۱]           ”جو آلات لہو ولعب کے لیے موضوع ہیں انہیں دینی مقاصد کے لیے استعمال کرنا دین کی بے حرمتی ہے “۔
[۲]           ”شریعت میں تصویر مطلقاً حرام ہے ،خواہ دقیانوسی زمانے کے لوگوں نے ہاتھ سے بنائی ہو یا جدید سائنسی ترقی نے اسے ایجاد کیا ہو“۔
[۳]           ”ہماری شریعت میں جاندار کی تصویر حرام ہے اور آنحضرت ا نے اس پر لعنت فرمائی ہے ، ٹیلی ویژن اور ویڈیوفلموں میں تصویر ہوتی ہے جس چیز کو آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  حرام اور ملعون فرمارہے ہوں اس کے جواز کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ، بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ان چیزوں کو اچھے مقاصد کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے ، یہ خیال بالکل لغو ہے ، اگر کوئی ام الخبائث (شراب) کے بارے میں کہے کہ اس کو نیک مقاصد کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے تو قطعا لغو بات ہوگی ، ہمارے دور میں ٹی وی اور ویڈیو ”ام الخبائث “ کا درجہ رکھتے ہیں اور یہ سینکڑوں خبائث کا سرچشمہ ہیں“۔
[۴]           ”جو نکات آپ نے پیش فرمائے ہیں اکثر وبیشتر پہلے بھی سامنے آتے رہے ہیں ، ٹی وی اور ویڈیو فلم کا کیمرہ جوتصویریں لیتا ہے وہ اگرچہ غیر مرئی ہیں لیکن تصویر بہر حال محفوظ ہے اور اس کو ٹی وی پر دیکھا اور دکھا یاجاتا ہے ،اس کو تصویر کے حکم سے خارج نہیں کیا جاسکتا ، زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہاتھ سے تصویر بنانے کے فرسودہ نظام کی بجائے سائنسی ترقی میں تصویر سازی کا ایک دقیق طریقہ ایجاد کرلیا گیا ہے ، لیکن جب شارع نے تصویر کو حرام قرار دیا ہے تو تصویر سازی کا طریقہ خواہ کیسا ہی ایجاد کر لیا جائے تصویر تو حرام ہی رہے گی ، اور میرے ناقص خیال میں ہاتھ سے تصویر سازی میں وہ قباحتیں نہیں تھیں جو ویڈیو فلم اور ٹی وی نے پیدا کر دی ہیں “۔
[۵]           ”یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ویڈیو فلم اور ٹی وی سے تبلیغ اسلام کا کام لیا جاتا ہے ، ہمارے یہاں ٹی وی پر دینی پروگرام بھی آتے ہیں لیکن کیا میں بڑے ادب سے پوچھ سکتا ہوں کہ ان دینی پروگراموں کو دیکھ کر کتنے غیر مسلم دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے ؟کتنے بے نمازیوں نے نماز شروع کردی؟کتنے گناہ گاروں نے گناہوں سے توبہ کر لی؟لہذا یہ محض دھوکا ہے ، فواحش کا یہ آلہ جو سر تا سر نجس العین ہے اور ملعون ہے اور جس کے بنانے والے دنیا وآخرت میں ملعوں ہیں وہ تبلیغ اسلام میں کیا کام دے گا ؟بلکہ ٹی وی کے یہ دینی پروگرام گمراہی پھیلانے کا ایک مستقل ذریعہ ہیں ، شیعہ ، مرزائی ، ملحد ، کمیونسٹ اور ناپختہ علم لوگ ان دینی پروگراموں کے لیے ٹی وی پر جاتے ہیں اور اناپ شناپ جو ان کے منہ میں آتا ہے کہتے ہیں، کوئی ان پر پابندی لگانے والا نہیں اور کوئی صحیح وغلط کے درمیان تمیز کرنے والا نہیں ، اب فرمایا جائے کہ یہ اسلام کی تبلیغ واشاعت ہورہی ہے یا اسلام کے حسین چہرے کو مسخ کیا جارہا ہے ؟؟!!رہا یہ سوال کہ فلاں یہ کہتے ہیں اور یہ کرتے ہیں ،یہ ہمارے لیے جواز کی دلیل نہیں“۔
[۶]           ”یہ اصول ذہن میں رکھیے کہ گناہ ہر حال میں گناہ ہے ، خواہ (خدا نخواستہ) ساری دنیا اس میں ملوث ہوجائے ، دوسرا اصول یہ بھی ملحوظ رکھیے کہ جب کوئی برائی عام ہوجائے تو اگرچہ اس کی نحوست بھی عام ہوگی مگر آدمی مکلف اپنے فعل کا ہے ، پہلے اصول کے مطابق کچھ علماء کا ٹیلی ویژن پر آنا اس کے جواز کی دلیل نہیں ، نہ امام حرام کا تراویح پڑھانا ہی اس کے جواز کی دلیل ہے ، اگر طبیب کسی بیماری میں مبتلا ہوجائیں تو بیماری ”بیماری“ ہی رہے گی، اس کو ”صحت “ کا نام نہیں دیا جاسکتا “۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین