بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا قرض کی ادائیگی کے لیے گردہ فروخت کر سکتے ہیں؟


سوال

لوگوں کے قرضے زیادہ ہوں اور بہتات کی وجہ سے قرض خواہ کی عزت کو خطرہ ہو، بایں صورت کہ کوئی بیوی لے جانے کی دھمکی دے اور کوئی بیٹی کی  تو اس صورت میں گردہ یا کوئی اور عضو بیچ سکتا ہے؟

جواب

انسانی اعضاء اللہ رب العزت  کی ملکیت ہیں، انسان کے پاس یہ اعضاء امانت ہیں، ان میں اپنی مرضی  سے تصرف کرنے  یا اسے فروخت کرنے کی شرعًا اجازت نہیں ہے، لہذا صورتِ  مسئولہ میں گردہ یا کوئی اور عضو فروخت کرنا جائز  نہیں ہے۔

قرض  سے خلاصی کے لیے  ہر نماز کے بعد اور چلتے پھرتے درج ذیل دعا کا اہتمام کریں:

"اللَّهُمَّ اكْفِنِي بحَلالِكَ عَنْ حَرَامِكَ، وَأَغْنِنِي بفَضْلِكَ عَمَّنْ سِوَاكَ".

سنن الترمذي میں ہے:

"حدثنا عبد الله بن عبد الرحمن قال: أخبرنا يحيى بن حسان قال: حدثنا أبو معاوية، عن عبد الرحمن بن إسحاق، عن سيار، عن أبي وائل، عن علي، أن مكاتبا جاءه فقال: إني قد عجزت عن مكاتبتي فأعني، قال: ألا أعلمك كلمات علمنيهن رسول الله صلى الله عليه وسلم لو كان عليك مثل جبل صير دينًا أداه الله عنك، قال: " قل: اللهم اكفني بحلالك عن حرامك، وأغنني بفضلك عمن سواك ": هذا حديث حسن غريب."

(أبواب الدعوات، باب، ٥ / ٥٦٠، رقم الحديث: ٣٥٦٣، ط:شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي - مصر)

نیز  درج ذیل درود شریف 4444  مرتبہ پڑھیں:

’’الَلّٰهُمَّ صَلِّ صَلَاةً كَامِلَةً وَسَلِّمْ سَلَامًا تَآمًّا عَلٰى سَیَّدِنَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ، صَلَاةً  تَنْحَلُّ بِهَا الْعُقَدُ وَ تَنْفَرِجُ بِهَا الْکُرَبُ وَتُقْضٰی بِهَا الْحَوَائِجُ وَ تُنَالُ بِهَا الرَّغَائِبُ وَحُسْنُ الْخَوَاتِيْمِ وَ یُسْتَسْقَی الْغَمَامُ بِوَجْهِهِ الْکَرِیْم وَ عَلٰی آلِهِ وَ أَصْحَابِهِ فِيْ كُلِّ لَمْحَةٍ وَّ نَفَسٍ بِعَدَدِ كُلِّ مَعْلُوْمٍ لَّكَ.‘‘

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک پر فتاویٰ ملاحظہ کیجیے:

قرض اور پریشانی سے نجات کے لیے نبی کریم ﷺ کی بتلائی ہوئی مسنون دعائیں

قرضہ اور بیٹی کے رشتہ کے لیے وظیفہ

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144207200465

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں