بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

’’خدا بھی آکر بول دے تو بھی یقین نہیں کروں گا‘‘ کہنے کا حکم/ غیر اللہ کی قسم کھانا ممنوع ہے لیکن کفر نہیں


سوال

 1) اگر کوئی شخص  کسی معاملہ میں یہ کہہ دے کہ خدا بھی آکر بول دے تو بھی یقین نہیں کروں گا۔ ایسے کہنے سے کیا حکم ہے؟ (لیکن اس بات پر شک ہے کہ اس شخص نے یہ کہا بھی ہے یا نہیں)  یہ بات شادی سے پہلے کی ہے اس کے بعد شادی ہوئی۔

2) غیر اللہ کی قسم کھانے سے بندہ کافر ہو جاتا ہے؟ نکاح ٹوٹ جاتا ہے؟

3) گناہ کبیرہ ہوا، استغفار کیا، لیکن دل مطمئن نہیں۔

جواب

۱)اگر کسی شخص نے واقعتًا یہ جملہ کہا ہو کہ ’’ خدا بھی آکر بول دے تو بھی یقین نہیں کروں گا‘‘ تو اس جملے  کے کہنے سے وہ دائرۂ  اسلام سے خارج ہوجائے گا، اس پر  کلمہ پڑھ کر تجدیدِ  ایمان کرنا لازم ہوگا، اور نکاح سے پہلے کلمہ پڑھ لیا اور توبہ کرلی تو تجدیدِ نکاح کی ضرورت نہیں ہوگی، البتہ اگر نکاح ہونے تک تجدیدِ ایمان نہیں کیا تو تجدیدِ ایمان کے ساتھ ساتھ دو مسلمان مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں کی  موجودگی میں نکاح بھی کرنا ہوگا۔

۲)بلاضرورت قسم کھانا پسندیدہ عمل نہیں ہے، اگر کوئی ضرورت یا مجبوری ہو، تو صرف اللہ تبارک وتعالیٰ کے ناموں یا صفات کی ہی قسم اٹھانا جائز ہے، غیراللہ کی قسم کھانا جائز  نہیں ہے،  احادیثِ مبارکہ میں غیراللہ کی قسم اٹھانے سے منع کیا گیا ہے، البتہ غیر اللہ کی قسم کھانے سے آدمی دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوتا ہے اور نہ ہی نکاح ٹوٹتا ہے، بلکہ  اگر کوئی شخص غیر اللہ کی قسم اٹھا لے تو وہ قسم درست ہی نہیں ہوتی اور  ایسی قسم توڑنے کی صورت میں کوئی کفارہ بھی لازم نہیں ہوتا، تاہم غیر اللہ کی قسم کھانے پر توبہ و استغفار کرنا چاہیے۔

البتہ قرآنِ کریم کلامِ الٰہی ہے، اور اللہ کا کلام اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ہے؛ اس لیے  "قرآن کی قسم" کے الفاظ سے قسم اٹھانے سے قسم ہوجاتی ہے، اور اس کے توڑنے پر کفارہ لازم ہے۔  لیکن صرف مصحف (قرآنِ پاک کا نسخہ) ہاتھ میں اٹھانے سے قسم منعقد نہیں ہوگی، جب تک زبان سے قسم کے الفاظ ادا نہ کرے۔

۳)  گناہِ کبیرہ کے بعد توبہ کی توفیق اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی ملتی ہے، اس  لیے توبہ کی توفیق ملنے کے بعد اللہ تعالیٰ سے اچھا گمان اور اچھی امید رکھنی  چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اس گناہ کو معاف فرمادیں گے، اس طرح کے وسوسے شیطان انسان کے دل میں ڈالتا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے انسان کو مایوس کر کے توبہ کرنے سے محروم کرسکے، اس  لیے ان وساوس کی طرف بالکل توجہ نہیں دینی چاہیے اور اللہ رب العزت سے مغفرت کی امید رکھنی چاہیے۔

تفصیل کے لیے درج ذیل لنکس پر موجود فتاویٰ ملاحظہ کیجیے:

زنا سے توبہ کرنا اور گناہوں سے بچنے کی تدابیر

عمداً کیے گئے گناہ توبہ سے معاف ہوتے ہیں یا نہیں؟

کیا آدمی گناہ سے توبہ کے بعد بھی فاسق رہتا ہے؟

توبہ کے بعد دوبارہ گناہ سرزد ہونے کا حکم

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

 "من کان حالفاً فلیحلف بالله أو لیصمت".

ترجمہ:جو قسم کھانا چاہے تو وہ اللہ کی قسم کھائے یا خاموش رہے۔( بخاری ومسلم)

"عن ابن عمر رضي الله عنه قال : قال رسول الله ﷺ :  من حلف بغیر الله فقد أشرك".( الترمذی)

ترجمہ: ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :  جس نے اللہ کے علاوہ کی قسم کھائی اس نے شرک کیا۔ 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 705):

"وهل يكره الحلف بغير الله تعالى؟ قيل: نعم؛ للنهي، وعامتهم لا، وبه أفتوا لا سيما في زماننا، وحملوا النهي على الحلف بغير الله لا على وجه الوثيقة كقولهم: بأبيك ولعمرك ونحو ذلك عيني.
(قوله: وهل يكره الحلف بغير الله تعالى إلخ) قال الزيلعي: واليمين بغير الله تعالى أيضاً مشروع، وهو تعليق الجزاء بالشرط وهو ليس بيمين وضعاً، وإنما سمي يميناً عند الفقهاء؛ لحصول معنى اليمين بالله تعالى وهو الحمل أو المنع، واليمين بالله تعالى لايكره، وتقليله أولى من تكثيره، واليمين بغيره مكروهة عند البعض؛ للنهي الوارد فيها، وعند عامتهم لاتكره؛ لأنها يحصل بها الوثيقة لا سيما في زماننا، وما روي من النهي محمول على الحلف بغير الله تعالى لا على وجه الوثيقة كقولهم: وأبيك ولعمري اهـ ونحوه في الفتح.
وحاصله: أن اليمين بغيره تعالى تارةً يحصل بها الوثيقة: أي اتثاق الخصم بصدق الحالف كالتعليق بالطلاق والعتاق مما ليس فيه حرف القسم، وتارةً لايحصل مثل وأبيك ولعمري فإنه لايلزمه بالحنث فيه شيء فلاتحصل به الوثيقة، بخلاف التعليق المذكور والحديث وهو قوله صلى الله عليه وسلم : «من كان حالفاً فليحلف بالله تعالى» إلخ محمول عند الأكثرين على غير التعليق فإنه يكره اتفاقاً لما فيه من مشاركة المقسم به لله تعالى في التعظيم. وأما إقسامه تعالى بغيره كالضحى والنجم والليل فقالوا: إنه مختص به تعالى، إذ له أن يعظم ما شاء وليس لنا ذلك بعد نهينا. وأما التعليق فليس فيه تعظيم بل فيه الحمل أو المنع مع حصول الوثيقة فلايكره اتفاقاً كما هو ظاهر ما ذكرناه.
وإنما كانت الوثيقة فيه أكثر من الحلف بالله تعالى في زماننا لقلة المبالاة بالحنث ولزوم الكفارة. أما التعليق فيمتنع الحالف فيه من الحنث خوفاً من وقوع الطلاق والعتاق. وفي المعراج: فلو حلف به لا على وجه الوثيقة أو على الماضي يكره (قوله: ولعمرك) أي بقاؤك وحياتك، بخلاف لعمر الله فإنه قسم كما سيأتي".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3 / 712):

"(لا) يقسم (بغير الله تعالى كالنبي والقرآن والكعبة) قال الكمال: ولايخفى أن الحلف بالقرآن الآن متعارف فيكون يمينًا.

(قوله: لايقسم بغير الله تعالى) عطف على قوله والقسم بالله تعالى: أي لاينعقد القسم بغيره تعالى أي غير أسمائه وصفاته ولو بطريق الكناية كما مر، بل يحرم كما في القهستاني، بل يخاف منه الكفر في نحو وحياتي وحياتك كما يأتي.
مطلب في القرآن
(قوله: قال الكمال إلخ) مبني على أن القرآن بمعنى كلام الله، فيكون من صفاته تعالى كما يفيده كلام الهداية حيث قال: ومن حلف بغير الله تعالى لم يكن حالفا كالنبي والكعبة، لقوله عليه الصلاة والسلام: "من كان منكم حالفًا فليحلف بالله أو ليذر"، وكذا إذا حلف بالقرآن؛ لأنه غير متعارف اهـ. فقوله: "وكذا" يفيد أنه ليس من قسم الحلف بغير الله تعالى، بل هو من قسم الصفات، و لذا علله بأنه غير متعارف، ولو كان من القسم الأول كما هو المتبادر من كلام المصنف والقدوري لكانت العلة فيه النهي المذكور أو غيره؛ لأن التعارف إنما يعتبر في الصفات المشتركة لا في غيرها. وقال في الفتح: وتعليل عدم كونه يمينًا بأنه غيره تعالى؛ لأنه مخلوق؛ لأنه حروف وغير المخلوق هو الكلام النفسي منع بأن القرآن كلام الله منزل غير مخلوق. ولايخفى أن المنزل في الحقيقة ليس إلا الحروف المنقضية المنعدمة، وما ثبت قدمه استحال عدمه، غير أنهم أوجبوا ذلك؛ لأن العوام إذا قيل لهم: إن القرآن مخلوق تعدوا إلى الكلام مطلقًا. اهـ. وقوله: ولايخفى إلخ رد للمنع.
وحاصله: أن غير المخلوق هو القرآن بمعنى كلام الله الصفة النفسية القائمة به تعالى لا بمعنى الحروف المنزلة غير أنه لايقال: القرآن مخلوق لئلايتوهم إرادة المعنى الأول. قلت: فحيث لم يجز أن يطلق عليه أنه مخلوق ينبغي أن لايجوز أن يطلق عليه أنه غيره تعالى بمعنى أنه ليس صفة له؛ لأن الصفات ليست عينًا ولا غيرًا كما قرر في محله، ولذا قالوا: من قال بخلق القرآن فهو كافر. ونقل في الهندية عن المضمرات: وقد قيل هذا في زمانهم، أما في زماننا فيمين وبه نأخذ ونأمر ونعتقد. وقال محمد بن مقاتل الرازي: إنه يمين، وبه أخذ جمهور مشايخنا اهـ فهذا مؤيد لكونه صفة تعورف الحلف بها كعزة الله وجلال". 

 فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144206200521

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں