میں نے اپنی زندگی میں پہلی دفعہ زنا کیا اور وہ بھی شادی شدہ عورت سے اور میں بھی شادی شدہ ہوں، اور بعد میں مجھے بہت پشیمانی ہوئی اور آج تک ہورہی ہے، حضرت اب تک سکون نہیں مل رہا ہے، کیا میری توبہ قبول ہوجائے گی؟ یا پھر کوئی کفارہ ہے؟ آپ میرے لیے دعا کریں کہ مجھے رسوائی نہ ہوجائے، اللہ پاک مجھے معاف کردے!
واضح رہے کہ زنا بہت بڑا گناہ ہے، قرآن و حدیث میں زنا کی سخت مذمت بیان کی گئی ہے اور زنا کرنے والوں کے بارے میں سخت وعیدیں نازل ہوئی ہیں۔
حدیثِ مبارک میں ہے:
’’ساتوں آسمان اور ساتوں زمینیں شادی شدہ زنا کار پر لعنت کرتی ہیں اور جہنم میں ایسے لوگوں کی شرم گاہوں سے ایسی سخت بدبو پھیلے گی جس سے اہلِ جہنم بھی پریشان ہوں گے اور آگ کے عذاب کے ساتھ ان کی رسوائی جہنم میں ہوتی رہے گی۔‘‘(مسند بزار)
ایک دوسری حدیث میں ہے:
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: زنا کرنے والا زنا کرنے کے وقت مؤمن نہیں رہتا، چوری کرنے والا چوری کرنے کے وقت مؤمن نہیں رہتا، اور شراب پینے والا شراب پینے کے وقت مؤمن نہیں رہتا۔‘‘(صحیح بخاری)
ایک اور حدیث میں ہے:
’’حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک نوجوان نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا: یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ و سلم مجھے زنا کرنے کی اجازت دے دیجیے! لوگ اس کی طرف متوجہ ہو کر اُسے ڈانٹنے لگے اور اسے پیچھے ہٹانے لگے، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے فرمایا: میرے قریب آجاؤ! وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے قریب جا کر بیٹھ گیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے پوچھا: کیا تم اپنی والدہ کے حق میں بدکاری کو پسند کروگے؟ اس نے کہا: اللہ کی قسم! کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں! نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: لوگ بھی اسے اپنی ماں کے لیے پسند نہیں کرتے۔ پھر دریافت فرمایا: کیا تم اپنی بیٹی کے حق میں بدکاری کو پسند کرو گے؟ اس نے کہا: اللہ کی قسم! کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں! نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: لوگ بھی اسے اپنی بیٹی کے لیے پسند نہیں کرتے۔ پھر پوچھا: کیا تم اپنی بہن کے حق میں بدکاری کو پسند کرو گے؟ اس نے کہا: اللہ کی قسم! کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں! نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: لوگ بھی اسے اپنی بہن کے لیے پسند نہیں کرتے۔ پھر پوچھا: کیا تم اپنی پھوپھی کے حق میں بدکاری کو پسند کرو گے؟ اس نے کہا: اللہ کی قسم! کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں! نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: لوگ بھی اسے اپنی پھوپھی کے لیے پسند نہیں کرتے۔ پھر پوچھا: کیا تم اپنی خالہ کے حق میں بدکاری کو پسند کرو گے؟ اس نے کہا: اللہ کی قسم کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں! نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: لوگ بھی اسے اپنی خالہ کے لیے پسند نہیں کرتے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنا دستِ مبارک اس کے جسم پر رکھا اور دعا کی کہ: ”اے اللہ! اس کے گناہ معاف فرما، اس کے دل کو پاک فرما اور اس کی شرم گاہ کی حفاظت فرما!“ ، راوی کہتے ہیں: اس کے بعد اس نوجوان نے کبھی کسی کی طرف توجہ بھی نہیں کی۔‘‘(مسند احمد)
نیز واضح رہے کہ ہر گناہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہے اور اس کی اطاعت و فرمانبرداری سے اعراض ہے، اور اللہ تعالیٰ کا نافرمان دنیا و آخرت میں کہیں چین و سکون نہیں پاسکتا، گناہ کرنے والے کی زندگی تلخ کردی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد پاک ہے:
’’وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا‘‘ [طه:124]
ترجمہ: ’’اور جو شخص میری اس نصیحت سے اعراض کرے گا تو اس کے لیے (قیامت سے پہلے دنیا میں قبر اور) تنگی کا جینا ہوگا۔‘‘ (بیان القرآن)
دنیا اور آخرت میں چین و سکون پانے کا ایک ہی راستہ ہے کہ اس پالنے والے خالق و مالک کی نافرمانی چھوڑ کر اپنی پوری زندگی اس کی اطاعت اور فرمانبرداری میں گزاری جائے۔ پھر اللہ پاک اپنے بندہ کو پاکیزہ اور بالطف زندگی عطا فرمائیں گے اور آخرت میں خوب اجر و ثواب سے نوازیں گے۔ سورہ نحل میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً ۖ وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ‘‘[النحل:97]
ترجمہ: ’’جو شخص کوئی نیک کام کرے گا خواہ وہ مرد ہو یا عورت ہو بشرطیکہ صاحبِ ایمان ہو (کیوں کہ کافر کے اعمالِ صالحہ مقبول نہیں) تو ہم اس شخص کو (دنیا میں تو) بالطف زندگی دیں گے اور (آخرت میں) ان کے اچھے کاموں کے عوض میں ان کا اجر دیں گے۔‘‘ (بیان القرآن)
دین اسلام میں مایوسی بالکل نہیں ہے، انسان خطا کا پتلا ہے، گناہ انسان کی فطرت میں داخل ہے، لیکن بہترین ہے وہ شخص جو گناہ کرکے اس پر قائم نہ رہے، بلکہ فوراً توبہ کرکے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگ لے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
’’ہر بنی آدم (انسان) بہت زیادہ خطا کار ہے، اور (لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک) بہترین خطاکار وہ ہیں جو کثرت سے توبہ کرنے والے ہوں۔‘‘ (سنن ابن ماجہ)
گناہ پر پشیمانی حیاتِ ایمانی کی علامت ہے، اور توبہ کی اولین شرط یہی ندامت و پشیمانی ہے، حدیث شریف میں ندامت کو ہی توبہ کہا گیا ہے۔ اگر کوئی شخص اسی ندامت کے ساتھ گناہ کرنا چھوڑ دے اور اللہ تعالیٰ سے سچے دل سے معافی مانگے اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا پکا ارادہ کرے تو اللہ تعالیٰ ایسے شخص کی توبہ قبول فرما کر اس کو معاف فرما دیتے ہیں۔ بلکہ توبہ کرنے والا شخص اللہ تعالیٰ کا پیارا اور محبوب بن جاتا ہے۔ قرآنِ کریم اور احادیثِ مبارکہ میں توبہ کے بہت فضائل وارد ہوئے ہیں، مثلاً:
قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ بواسطہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اپنے گناہ گار بندوں سے ارشاد فرماتے ہیں:
’’قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ‘‘[الزمر:53]
ترجمہ: ’’آپ کہہ دیجیے کہ اے میرے بندو! جنہوں نے (کفر و شرک کرکے) اپنے اوپر زیادتیاں کی ہیں کہ تم اللہ کی رحمت سے ناامید مت ہو، بالیقین اللہ تعالیٰ تمام (گزشتہ) گناہوں کو معاف فرمائے گا، واقع وہ بڑا بخشنے والا، بڑی رحمت کرنے والا ہے۔‘‘ (بیان القرآن)
توبہ کرکے بندہ اللہ تعالیٰ کا پیارا اور محبوب بن جاتا ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اِنَّ اللَّهَ یُحِبُّ التَّوَّابِینَ وَ یُحِبُّ المُتَطَهِّرِینَ‘‘ [البقرة:222]
ترجمہ: ’’یقینًا اللہ تعالیٰ محبت رکھتے ہیں توبہ کرنے والوں سے اور محبت رکھتے ہیں پاک صاف رہنے والوں سے۔‘‘ (بیان القرآن)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
’’گناہ سے (صدقِ دل سے) توبہ کرنے والا اس شخص کی طرح (پاک و صاف ہوجاتا) ہے جس نے کوئی گناہ کیا ہی نہ ہو۔‘‘ (سنن ابن ماجہ)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
’’اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے! اگر تم اتنے گناہ بھی کرلو جن سے آسمان اور زمین کے درمیان (پوری دنیا) بھر جائے، پھر تم اللہ تعالیٰ سے معافی مانگو تو اللہ تعالیٰ تمہیں معاف کردیں گے۔ اور اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے! اگر تم خطا کرنا چھوڑ دو گے تو اللہ تعالیٰ ایسی قوم پیدا کریں گے جو خطائیں کرے گی پھر اللہ تعالیٰ سے معافی مانگے گی اور اللہ تعالیٰ انہیں معاف کریں گے۔‘‘ (مسند احمد)
مذکورہ حدیث اور درج ذیل حدیث سے پتا چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو بندوں کا توبہ کرنا اور معافی مانگنا کتنا پسند ہے! حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ اپنے بندہ کی توبہ سے اس شخص سے بھی زیادہ خوش ہوتے ہیں جس شخص نے (سفر میں) اپنی سواری کو کسی جنگل بیابان میں گم کردیا ہو، پھر اسے بہت تلاش کرکے تھک ہار کے کپڑا اوڑھ کر لیٹ گیا ہو، اسی اثنا میں اچانک اپنے چہرے سے کپڑا ہٹائے تو اپنی (گم شدہ) سواری کو اپنے سامنے پائے (اس وقت اس شخص کو اپنی سواری پانے کی جتنی خوشی ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ کو اپنے بندہ کی توبہ سے اس سے بھی زیادہ خوشی ہوتی ہے)۔‘‘ (سنن ابن ماجہ)
اسی حدیث کی بعض روایات کے الفاظ میں یہ بھی اضافہ ہے کہ وہ بندہ اپنی سواری اور توشۂ سفر ملنے کی خوشی کی شدت کی وجہ سے یوں کہہ دیتاہے: "اے اللہ! تو میرا بندہ، میں تیرا رب ہوں"۔ یعنی فرطِ مسرت میں جسے یہ ہوش نہ رہے کہ وہ رب کو بندہ اور خود کو رب کہہ رہاہے، اس کی خوشی کا اندازا کیا جاسکتاہے، یوں سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ سے اس سے بھی زیادہ خوش ہوتے ہیں۔
گناہوں سے توبہ کا طریقہ یہ ہے کہ:
1۔ جن گناہوں میں مبتلا ہو انہیں فوراً چھوڑ دے۔
2۔ اپنے گناہوں پر ندامت طاری ہو۔
3۔ سچے دل سے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگے اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا پکا ارادہ کرے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
’’سچی توبہ یہ ہے کہ انسان جس گناہ سے توبہ کرے پھر دوبارہ وہ گناہ نہ کرے۔‘‘ (مسند احمد)
گناہوں سے معافی کے لیے توبہ کے علاوہ اور کوئی کفارہ نہیں ہے۔ اور آئندہ گناہوں سے بچنے کے لیے قرآن و حدیث کی روشنی میں بزرگوں کی بتائی ہوئی کچھ تدابیر ہیں جنہیں اختیار کرنے سے گناہوں سے بچنا انتہائی آسان ہوجاتا ہے:
1۔ سچی توبہ کرنے کے بعد پچھلے گناہ کو یاد نہ کریں، اور نہ ہی کسی سے اس کا تذکرہ کریں۔
2۔ جس عورت کے ساتھ گناہ میں مبتلا ہوئے، اس عورت سے دوبارہ ملنے، اسے دیکھنے یا اس سے بات چیت کرنے سے مکمل اجتناب کریں، بلکہ اس عورت کے تصور سے بھی اپنے دل و دماغ کو بچائیں۔
3۔ کسی نیک اور سچے اللہ والے کی صحبت اختیار کریں، ان کی مجالس اور بیانات میں آنا جانا رکھیں اور ان سے اپنے روحانی امراض اور گناہوں کی اصلاح کرواتے رہیں۔
4۔ برے دوستوں، بری صحبت اور گناہوں والے ماحول سے اپنے آپ کو بچائیں۔
5۔ گھر کو زنا کی دعوت دینے والے آلات؛ ٹی وی، کیبل، فلموں وغیرہ سے پاک کریں۔
6۔ اگر نوکری یا کاروبار وغیرہ کی ضرورت کی وجہ سے اسمارٹ فون یا کمپیوٹر وغیرہ استعمال کرتے ہوں تو ان چیزوں کو تنہائی میں ہرگز استعمال نہ کریں، بلکہ گھر یا آفس میں سب کی نظروں کے سامنے استعمال کریں۔
7۔ اپنے بیوی بچوں پر بھی دین کی محنت کریں، اور انہیں نیک ماحول فراہم کریں اور دینی باتوں، خصوصاً شرعی پردہ کی ترغیب دیتے رہیں اور خود بھی شرعی پردے کی پابندی کریں۔
8۔ گھر میں، باہر، دفاتر وغیرہ میں نامحرم عورتوں، خصوصًا رشتہ دار نامحرم عورتوں (بھابھی، سالی، ممانی، چچی، تائی، خالہ زاد، ماموں زاد، چچا زاد، تایا زاد، پھوپھی زاد وغیرہ) سے نظروں کی مکمل حفاظت کریں اور نامحرم عورتوں کے ساتھ تنہائی میں ہرگز نہ رہیں، حدیث میں آتا ہے کہ جہاں کوئی مرد و عورت تنہا ہوتے ہیں تو وہاں ان کے درمیان تیسرا شیطان ہوتا ہے۔
9۔ روزانہ نمازِ حاجت پڑھ کر اپنی اور اپنے گھر والوں کی اصلاح کے لیے خوب گڑگڑا کر دعا کریں، رونے کی کوشش کریں اور اگر رونا نہ آئے تو رونے والی شکل بنا کر دعا کریں۔
10۔ جب بھی کسی گناہ کا خیال دل میں آئے تو یہ تصور کریں کہ اللہ میرے ساتھ ہے اور اللہ مجھے دیکھ رہا ہے، اور وہ مجھے عذاب دینے اور دنیا و آخرت میں سزا دینے پر قادر ہے، اگر خدانخواستہ گناہ ہوگیا تو دنیا میں بھی رسوائی ہوگی اور قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور تمام مخلوق کے سامنے بھی رسوائی ہوگی۔
11۔ جب بھی وضو کریں تو اچھی طرح سنتوں و آداب کے اہتمام سے وضو کریں اور وضو کے بعد یہ مسنون دعا پڑھا کریں:
’’أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَ رَسُولُهُ، اَللّٰهُمَّ اجْعَلْنِي مِنَ التَّوَّابِينَ وَ اجْعَلْنِي مِنَ الْمُتَطَهِّرِينَ‘‘
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص اچھی طرح وضو کرے اور پھر یہ دعا پڑھے تو اس کے لیے جنت کے آٹھ دروازے کھل جائیں گے، وہ جس سے چاہے جنت میں داخل ہوجائے۔‘‘ (ترمذی)
12۔ تمام فرض نمازوں کے باجماعت اہتمام کے ساتھ کثرت سے درج ذیل دعاؤں میں سے کوئی دعا پڑھ لیا کریں، یا ساری دعائیں ایک ساتھ بھی پڑھ سکتے ہیں، اور مختلف دعاؤں کو مختلف اوقات میں بھی پڑھ سکتے ہیں:
’’رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ‘‘ [الأعراف:23]
ترجمہ: ’’اے ہمارے رب! ہم نے اپنا بڑا نقصان کیا (کہ پوری احتیاط اور تامل سے کام نہ لیا) اور اگر آپ ہماری مغفرت نہ کریں گے اور ہم پر رحم نہ کریں گے تو واقعی ہمارا بڑا نقصان ہوجائے گا۔‘‘ (بیان القرآن)
’’اَللَّهُمَّ إِنِّيْ أَسْأَلُكَ الْهُدَى وَ التُّقَى وَ الْعَفَافَ وَ الْغِنَى‘‘
ترجمہ: ’’یا اللہ! میں مانگتا ہوں تجھ سے ہدایت اور پرہیزگاری اور پارسائی اور سیرچشمی۔‘‘ (مسلم)
’’يَا حَيُّ يَا قَيُّوْمُ بِرَحْمَتِكَ أَسْتَغِيْثُ، أَصْلِحْ لِيْ شَأْنِيْ كُلَّهُ، وَ لَا تَكِلْنِيْ إِلَى نَفْسِيْ طَرْفَةَ عَيْنٍ‘‘
ترجمہ: ’’یاحی یاقیوم! میں تیری رحمت کے واسطہ سے تجھ سے فریاد کرتا ہوں کہ میرے سارے حال کو درست کردے اور مجھے میرے نفس کی طرف ایک لمحہ کے لیے بھی نہ سونپ۔‘‘ (السنن الکبریٰ للنسائی)
’’اَللَّهُمَّ قِنِيْ شَرَّ نَفْسِيْ وَ اعْزِمْ لِيْ عَلَى رُشْدِ أَمْرِيْ‘‘
ترجمہ: ’’یا اللہ! مجھے میرے نفس کی برائی سے محفوظ رکھ، اور مجھے میرے امور کی اصلاح کی ہمت دے۔‘‘ (السنن الکبریٰ للنسائی)
’’اَللَّهُمَّ ارْحَمْنِيْ بِتَرْكِ الْمَعَاصِيْ أَبَدًا مَّا أَبْقَيْتَنِيْ‘‘
ترجمہ: ’’یا اللہ! جب تک آپ مجھے زندہ رکھیں مجھ پر وہ رحم فرمائیے جس سے میں گناہوں کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ دوں۔‘‘ (ترمذی)
’’اَللَّهُمَّ طَهِّرْ قَلْبِيْ مِنَ النِّفَاقِ وَ عَمَلِيْ مِنَ الرِّيَاءِ وَ لِسَانِيْ مِنَ الْكَذِبِ وَ عَيْنِيْ مِنَ الْخِيَانَةِ ، فَإِنَّكَ تَعْلَمُ خَائِنَةَ الْأَعْيُنِ وَ مَا تُخْفِي الصُّدُوْرُ‘‘
ترجمہ: ’’یا اللہ! میرے دل کو نفاق سے پاک کردے، اور میرے عمل کو ریا سے، اور میری زبان کو جھوٹ سے، اور میری آنکھ کو خیانت سے، تجھ پر تو روشن ہیں آنکھوں کی چوریاں بھی، اور جو کچھ دل چھپائے رکھتے ہیں وہ بھی۔‘‘ (الدعوات الکبیر للبیہقی)
’’اَللَّهُمَّ اجْعَلْنِيْ أَخْشَاكَ كَأَنِّيْ أَرَاكَ أَبَدًا حَتَّى أَلْقَاكَ ، وَ أَسْعِدْنِيْ بِتَقْوَاكَ ، وَ لَا تُشْقِنِيْ بِمَعْصِيَتِكَ‘‘
ترجمہ: ’’یا اللہ! مجھے ایسا کردے کہ میں تجھ سے اس طرح ڈرا کروں کہ گویا میں ہر وقت تجھے دیکھتا رہتا ہوں یہاں تک کہ تجھ سے آملوں، اور مجھے تقویٰ سے سعادت دے، اور مجھے شقی (بدبخت) نہ بنا اپنی معصیت سے۔‘‘ (الدعاء للطبرانی)
’’اَللَّهُمَّ حَصِّنْ فَرْجِيْ وَ يَسِّرْ لِيْ أَمْرِيْ‘‘
ترجمہ: ’’یا اللہ! میری شرم گاہ کو محفوظ کردے، اور مجھ پر میرے کام آسان کردے۔‘‘ (مناجات مقبول، الحزب الاعظم للقاری)
’’اَللَّهُمَّ لَا تُخْزِنِيْ فَإِنَّكَ بِيْ عَالِمٌ وَ لَا تُعَذِّبْنِيْ فَإِنَّكَ عَلَيَّ قَادِرٌ‘‘
ترجمہ: ’’یا اللہ! مجھے رسوا نہ کرنا، بے شک تو مجھے خوب جانتا ہے، اور مجھ پر عذاب نہ کرنا، بے شک تو مجھ پر ہر طرح قدرت رکھتا ہے۔‘‘ (کنز العمال)
مسند البزار (ج:10، ص:310، ط: مكتبة العلوم والحكم - المدينة المنورة):
’’عن عبد الله بن بريدة عن أبيه رضي الله عنه : إن السماوات السبع و الأرضين السبع و الجبال ليلعن الشيخ الزاني و إن فروج الزناه لتؤذي أهل النار بنتن ريحها.‘‘
صحيح البخاري (ج:3، ص:136، ط: دار طوق النجاة):
’’عن أبي هريرة رضي الله عنه، قال: قال النبي صلى الله عليه و سلم: «لا يزني الزاني حين يزني و هو مؤمن، و لا يشرب الخمر حين يشرب و هو مؤمن، و لا يسرق حين يسرق و هو مؤمن، و لا ينتهب نهبة، يرفع الناس إليه فيها أبصارهم حين ينتهبها و هو مؤمن».‘‘
مسند الإمام أحمد بن حنبل (ج:21، ص:146، ط: مؤسسة الرسالة):
’’حدثنا أخشن السدوسي، قال: دخلت على أنس بن مالك قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " والذي نفسي بيده - أو والذي نفس محمد بيده - لو أخطأتم حتى تملأ خطاياكم ما بين السماء والأرض، ثم استغفرتم الله لغفر لكم، والذي نفس محمد بيده - أو والذي نفسي بيده - لو لم تخطئوا لجاء الله بقوم يخطئون، ثم يستغفرون الله، فيغفر لهم.‘‘
سنن ابن ماجه (ج:5، ص:319-321، ط: دار الرسالة العالمية):
’’عن أبي سعيد، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لله أفرح بتوبة عبده من رجل أضل راحلته بفلاة من الأرض، فالتمسها، حتى إذا أعيا تسجى بثوبه، فبينا هو كذلك إذ سمع وجبة الراحلة حيث فقدها، فكشف الثوب عن وجهه، فإذا هو براحلته.‘‘
’’عن أبي عبيدة بن عبد الله عن أبيه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "التائب من الذنب كمن لا ذنب له.‘‘
’’عن أنس رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "كل بني آدم خطاء، وخير الخطائين التوابون.‘‘
صحيح ابن حبان (ج:12، ص:399، ط: مؤسسة الرسالة - بيروت):
’’ألا لا يخلون رجل بامرأة فإن ثالثهما الشيطان.‘‘
مسند الإمام أحمد بن حنبل (ج:7، ص:299، ط: مؤسسة الرسالة):
’’عن عبد الله رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلی الله علیه و سلم : التوبة من الذنب: أن يتوب منه، ثم لا يعود فيه.‘‘
شرح النووي على مسلم (ج:17، ص:25، ط: دار إحياء التراث العربي - بيروت):
’’قال أصحابنا و غيرهم من العلماء: للتوبة ثلاثة شروط: أن يقلع عن المعصية و أن يندم على فعلها و أن يعزم عزما جازما أن لا يعود إلى مثلها أبدا، فإن كانت المعصية تتعلق بآدمي فلها شرط رابع و هو رد الظلامة إلى صاحبها أو تحصيل البراءة منه.‘‘
سنن الترمذي (ج:1، ص:109، ط: دار الغرب الإسلامي - بيروت):
’’عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: من توضأ فأحسن الوضوء ثم قال: أشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، و أشهد أن محمدا عبده و رسوله، اللهم اجعلني من التوابين، و اجعلني من المتطهرين، فتحت له ثمانية أبواب الجنة يدخل من أيها شاء.‘‘
فقط و الله أعلم
فتوی نمبر : 144202200179
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن