بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ہندوستان میں بینک کے سود کا حکم


سوال

میں ہندوستان میں رہتا ہوں، بینک میں جو اضافی رقم ملتی ہے، میں اس کو ناجائز سمجھتا ہوں، لیکن کچھ دن پہلے ایک صاحب نے فتویٰ دیا بینک میں جو اضافی رقم ملتی ہے وہ سود نہیں ہے، بلکہ جائز مال ہے؛ کیوں کہ ہم غیر مسلم ملک میں رہتے ہیں۔ اس مسئلہ کی کیا حقیقت ہے؟

جواب

آیاتِ قرآنیہ اور احادیثِ مبارکہ میں سود کے بارے میں وارد ہونے والی سخت اور مطلق وعیدوں کی روشنی میں راجح اور مفتیٰ بہ قول کے مطابق سودی رقم کا کسی بھی قسم کا لین دین کسی بھی جگہ جائز نہیں ہے، نہ دار الاسلام میں اور نہ ہی دار الحرب میں۔

 تفصیل کے لیے درج ذیل فتاویٰ ملاحظہ فرمائیں:

ہندوستان میں سود کے لین دین کا حکم

ہندوستان میں سود کا لین دین

مزید تفصیل کے لیے  امداد الفتاویٰ (ج:3،  کتاب الربوا، ص:155، ط:مکتبہ دار العلوم کراچی)، رسالہ بعنوان:"تحذیر الإخوان عن الربا في الھندوستان" اور فتاویٰ بینات (ج:4، ص:95 تا 100)  کتاب المعاملات۔ 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144112201259

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں