بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ہندوستان میں سود کے لین دین کا حکم


سوال

1.ہندوستان دارالحرب ہے؟

2.بریلوی علماء دارالحرب میں سودی لین کو جائز، حلال کہتے ہیں ؛ کیوں کہ فقہِ حنفی میں دارالحرب میں سودی لین کے جائز ہونے کا قول ملتا ہے؟

3.بریلوی علماء انشورنس کمپنی اور بینک کی نوکری کو حلال کہتے ہیں؛ کیوں کہ فقہ احناف کی کتابوں میں غیر اسلامی ملکوں میں (سودی پیسوں کے  بینک) میں نوکری کو حلال کہا گیا ہے ؟

4. جب کہ دیوبندی علماء اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ عندالاحناف اس اختلاف میں کون صحیح ہے؟

جواب

اس  بحث سے قطع نظر کہ ہندوستان دارالحرب ہے یا نہیں، آپ کے مطلوبہ مسائل کے جوابات درج ذیل ہیں:

۱) دار الحرب میں کافر حربی سے سود کے جائز ہونے یا نہ ہونے میں فقہاء کرام کے درمیان اختلاف ہے،  احناف میں سے  امام ابو یوسف رحمہ اللہ دارالحرب میں کافر حربی سے سود ی معاملے کو مطلقاً ناجائز کہتے ہیں، ان کا مستدل وہ نصوص ہیں جن میں  سود کو مطلقاً حرام قراردیا  گیاہے،  البتہ حنفیہ میں سے امام ابو حنیفہ اور امام محمد رحمہما اللہ  دارالحرب میں کافر حربی سے سود کو ایک غریب حدیث " لاربا بین المسلم والحربی"  کی بنیاد پر چند قیود کے ساتھ جائز کہتے ہیں۔ لیکن چوں کہ معاملہ سود کا ہے جس کی حرمت قرآنی آیات میں بغیر کسی قید کے منصوص ہے ؛ اس لیے حنفیہ کے یہاں جمہور کے مسلک (یعنی حرمت والے قول کو ) ترجیح حاصل ہے اور اسی پر فتویٰ ہے، طرفین کے مسلک (یعنی جواز کے قول) کو مرجوح قرار دیا گیا ہے۔ تفصیل کے لیے  امداد الفتاوی ،( ج: ۳، ص: ۱۱۷) رسالہ بعنوان:" تحذیر الاخوان عن الربا فی الھندوستان" اور فتاوی بینات، (ج: ۴، ص: ۹۵ تا ۱۰۰ ) کتاب المعاملات ملاحظہ فرمائیں۔

۲)  اسی طرح غیر اسلامی ملکوں میں بھی اسلامی ملکوں کی طرح  انشورنس کمپنی اور بینک کی نوکری  حلال  نہیں ہے؛ اس لیے  کہ عمومی نصوص حرمت پر دال ہیں۔ نیز فقہاء نے قاعدہ لکھا ہے کہ: اگر کہیں حلت وحرمت میں  علماء کا اختلاف ہوجائے تو ترجیح حرمت والے قول کو ہوگی۔ 

الفروق للقرافی میں ہے:

فان اختلف العلماء فی فعل هل هو مباح او حرام فالورع الترک.

( الفرق السادس والعشرون والمئتان من الفروق، ج: ۴، ص: ۲۷۔ ط:عالم الکتب) 

الاشباہ والنظائر میں ہے:

اذا تعارض الدلیلان احدهما یقتضی التحریم والاخر الاباحة قدم التحریم۔

( القاعدۃ الثانیۃ من الفن الثانی، ص: ۱۰۹،ط: قدیمی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143902200090

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں