بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ھندوستان میں سود کا لین دین


سوال

ہندمیں انشورنس کے پریمیم میں سودی رقم بھر سکتے ہیں؟

جواب

آیاتِ قرآنیہ اور احادیثِ مبارکہ میں سود کے بارے میں وارد ہونے والی سخت اور مطلق وعیدوں کی روشنی میں راجح اور مفتیٰ بہ قول کے مطابق سودی رقم کا کسی بھی قسم کا لین دین کسی بھی جگہ جائز نہیں ہے، نہ دار الاسلام میں اور نہ ہی دار الحرب میں، اگر کسی کے پاس غلطی سے کہیں سے سودی رقم آجائے تو اس کا حکم  یہ ہے   کہ اس رقم کے اصل مالک کو وہ رقم واپس کردی جائے، لیکن اگر اصل مالک تک پہنچانا ممکن نہ ہو تو پھر اس رقم کو غرباء و مساکین پر بغیر ثواب کی نیت سے صدقہ کر دیا جائے، سودی رقم کو انشورنس کے پریمیم (قسط) میں جمع کروانا جائز نہیں ہے، بلکہ انشورنس کی تمام اقسام چوں کہ سود اور قمار(جوے) کا مجموعہ ہے ؛ اس لیے اس میں حلال پیسہ جمع کرانا بھی ناجائز ہے اور انشورنس اسکیم سے کسی بھی قسم کا فائدہ اٹھانا بھی ناجائز ہے۔

''امداد المفتیین'' میں ہے:

'' سوال۔۔ کیا ہندوستان میں آج کل سرکاری بینک اور ڈاک خانہ اور غیر مسلموں سے سود لینا جائز ہے یا نہیں؟

جواب: دار الحرب میں غیر مسلموں سے سود لینے میں اختلاف ہے، امام اعظم اور امام محمد رحمہما اللہ  جائز فرماتے ہیں اور جمہور علماء اور امام مالک اور امام شافعی اور امام احمد اور حنفیہ میں سے امام ابو یوسف رحمہم اللہ حرام فرماتے ہیں، روایات اور آیات قرآن کریم میں بظاہر مطلقاً سود کی حرمت اور سخت وعیدیں مذکور ہیں ؛اس لیے احتیاط یہی ہے کہ ناجائز قرار دیا جائے۔

سود لینا کسی سے جائز نہیں مسلمان ہو یا ہندو۔ احتیاطی فتویٰ یہی ہے۔

(کتاب الربوٰ و القمار، ص :۷۰۶ ،درا الاشاعت )

کذا فی امداد الفتاویٰ، کتاب الربوٰ ، سوال: ۲۰۳ ، ج: ۳ ؍ ۱۵۳  ط:مکتبہ دار العلوم کراچی

کذا فی ’’تحذیر الاخوان عن الربوٰ فی الہندوستان، ص: ۵۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143908201047

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں