بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

اکیس تولہ سونے پر زکوۃ کا حکم


سوال

میری بیوی کے پاس اکیس تولہ سونا ہے جس کے عوض میں نے قرض لیا ہوا  ہے، اور سونا ان کے لاکر میں پڑا ہوا ہے، اب اس سونے پر زکوٰۃ کا کیا حکم ہے؟ میرے پاس سونا بھی نہیں ہے اور مرے  پےایبل زیادہ ہے میری انکم سے، اس حوالے سے رہنمائی فرمائیں!

جواب

بصورتِ مسئولہ اگر سائل کی بیوی کے پاس مذکورہ سونا ملکیتی ہے، اور اس سونے کے عوض قرضہ لینے والا بھی شوہر ہے خاتون نہیں ہے،  تو مذکورہ خاتون پر سالانہ ڈھائی فیصد زکات اداکرنا لازم ہے، تاہم  بیوی کے مال کی وجہ سے شوہر پر زکات واجب نہیں ہوگی۔

اگر سائل کی اہلیہ کے پاس فی الوقت نقدی موجود ہے تو وہ زکات کا حساب لگا کر زکات ادا کردے، اور اگر فی الوقت نقدی نہیں ہے، اور سائل کے پاس بھی اتنی رقم نہیں ہے کہ وہ بیوی کو بتاکر اس کی طرف سے زکات میں ادا کرے، تو جیسے ہی سونا واپس ملے سائل کی بیوی کو چاہیے کہ وہ سونے کی اُس وقت مارکیٹ ویلیو معلوم کرکے زکات ادا  کردے، اور اگر کئی سال بعد سونا واپس ملے تو گزشتہ سالوں کی زکات بھی ادا کرنی ہوگی۔

گزشتہ سالوں کی زکات کی ادائیگی کا طریقہ جاننے  کے لیے درج ذیل لنک ملاحظہ کیجیے:

سونے کی گزشتہ سالوں کی زکاۃ

سونے کی گزشتہ سالوں کی زکاۃ کی ادائیگی

باقی سائل پر زکوۃ کا حکم یہ ہے کہ جب سائل کے پاس سونا یا چاندی یا ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر نقدی یا مالِ تجارت نہیں ہے تو ملحوظ رہے کہ محض  تنخواہ   کی بنیاد پر  زکات  واجب نہیں ہوتی، بلکہ زکات  کا سال پورا ہونے پر جو مال (نقدی، سونا، چاندی، مالِ تجارت) موجود ہو اور وہ ضرورت سے زائد ہو اس پر زکات  واجب ہوتی ہے، اور تنخواہ میں سے جو رقم زکات کا سال پورا ہونے سے پہلے ذاتی اخراجات میں صرف ہوگئی اس پر زکات واجب نہیں ہوتی۔

فتاوی عالمگیری (الفتاوى الهندية ) میں ہے:

"وَلَوْ فَضَلَ مِنْ النِّصَابَيْنِ أَقَلُّ مِنْ أَرْبَعَةِ مَثَاقِيلَ، وَأَقَلُّ مِنْ أَرْبَعِينَ دِرْهَمًا فَإِنَّهُ تُضَمُّ إحْدَى الزِّيَادَتَيْنِ إلَى الْأُخْرَى حَتَّى يُتِمَّ أَرْبَعِينَ دِرْهَمًا أَوْ أَرْبَعَةَ مَثَاقِيلَ ذَهَبًا كَذَا فِي الْمُضْمَرَاتِ. وَلَوْ ضَمَّ أَحَدَ النِّصَابَيْنِ إلَى الْأُخْرَى حَتَّى يُؤَدِّيَ كُلَّهُ مِنْ الذَّهَبِ أَوْ مِنْ الْفِضَّةِ لَا بَأْسَ بِهِ لَكِنْ يَجِبُ أَنْ يَكُونَ التَّقْوِيمُ بِمَا هُوَ أَنْفَعُ لِلْفُقَرَاءِ قَدْرًا وَرَوَاجًا.

الزَّكَاةُ وَاجِبَةٌ فِي عُرُوضِ التِّجَارَةِ كَائِنَةً مَا كَانَتْ إذَا بَلَغَتْ قِيمَتُهَا نِصَابًا مِنْ الْوَرِقِ وَالذَّهَبِ كَذَا فِي الْهِدَايَةِ."

(الفصل الاول والثانى فى زكوة الذهب والفضة والعروض، ج:1، ص:179، ط:ايج ايم سعيد) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144210200085

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں