بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سونے کی گزشتہ سالوں کی زکاۃ


سوال

میرے پاس 8 تولہ سونا ہے، میں نے اس پر 3 سال کی زکاۃ ادا نہیں کی، ایسے میں کیا حکم ہے؟ کیا ہر سال کی الگ الگ ویلیو کے حساب سے زکاۃ ادا کرنی ہوگی یا موجودہ قیمت  کے حساب سے ادا کرنی ہوگی؟

جواب

اگرکسی شخص نے  گزشتہ سالوں کی زکاۃ ادا نہیں کی تو جس دن زکاۃ ادا کی جائےاس دن  کی قیمت کا اعتبار ہو گا، یعنی گزشتہ سالوں کی زکات موجودہ ریٹ کے حساب سے ادا کی جائے گی۔

    گزشتہ زمانے کی زکاۃ ادا کرنے کی صورت یہ ہے کہ سونے کی موجودہ قیمت لگا کر ہر سال اس کا چالیسواں حصہ نکالا جائے، اگلے سال زکاۃ ادا کرنے کے لیے اس سونے کی قیمت میں سے پہلے سال کی زکاۃ منہا کرکے چالیسواں حصہ نکالا جائے،  تیسرے سال کی زکاۃ ادا کرنے کے لیے سونے کی قیمت میں سے پہلے دوسالوں کی زکاۃ نکال کر چالیسواں حصہ نکالا جائے، اس طرح تمام سالوں کی زکاۃ ادا کی جائے، اور اگر زکاۃ منہا کرتے کرتے سونے کی مقدار نصاب سے کم رہ جائے تو اس کے بعد زکاۃ ساقط ہوجائے گی۔

واضح رہے کہ اگر آپ کے پاس تین سال سے صرف 8 تولہ سونا ہی ہے، اس کے ساتھ ضرورت سے زائد نقد رقم، چاندی یا مالِ تجارت نہیں ہے تو سونے کی زکاۃ میں اصل یہ ہے کہ سونے کا وزن کرکے اس کا چالیسواں حصہ (ڈھائی فیصد) ادا کیا جائے، اس وزن کا حساب کرنے کے بعد اس کی موجودہ قیمت بھی ادا کی جاسکتی ہے، تاہم اس طرح ہر سال کی زکاۃ میں سے ڈھائی فیصد وزن منہا کردیا جائے، جس سال ساڑھے سات تولہ سونے سے کم سونا رہ جائے اس کے بعد زکاۃ واجب نہیں ہوگی۔ مثلاً: 8 تولہ سونا جس کا مجموعی وزن 93.312gmسونا ہے، اس کا ڈھائی فیصد  2.332gmسونا ہے، یعنی پہلے سال کی زکاۃ میں 2.332gm سونا یا اس کی موجودہ قیمت ادا کرنی ہوگی، اور دوسرے سال کی زکاۃ میں یہ مقدار (2.332gm) منہا کرنے کے بعد 90.98gmسونا باقی ہوگا، اس کی زکاۃ 2.274gmسونا یا اس کی موجودہ قیمت ہوگی، تیسرے سال بقیہ سونے کا وزن 88.706gmہوگا، اس کی زکاۃ 2.217gmسونا یا اس کی موجودہ قیمت ہوگی۔ اس کے بعد سونے کا وزن 86.489gmرہ جائے گا، جو ساڑھے سات تولے سے کم ہے، لہٰذا اگر آپ کے پاس سونے کے علاوہ ضرورت سے زائد نقد رقم، چاندی یا مالِ تجارت بالکل نہ ہو تو چوتھے سال نصاب پورا نہ ہونے کی وجہ سے زکاۃ واجب نہیں ہوگی۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

"( و ) يضم ( الذهب إلى الفضة ) وعكسه بجامع الثمنية (قيمةً) وقالا: بالاجزاء". (كتاب الزكاة، باب زكاة المال ۲/ ۳٠۳ ط: سعيد)

فتاوی شامی میں ہے:

"( فلا زكاة على مكاتب ) ... ( وأثاث المنزل ودور السكنى ونحوها )". ( كتاب الزكاة ۲/ ۲٦۳ إلى ۲٦۵ ط: سعيد)

          بدائع الصنائع میں ہے:

"إذا كان لرجل مائتا درهم أو عشرون مثقال ذهب فلم يؤد زكوته سنتين يزكي السنة الأولى و كذا هكذا في مال التجارة و كذا في السوائم". (بدائع الصنائع، كتاب الزكوة ۲/ ۷ ط: سعيد) فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144109201454

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں