بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ڈراپ شپنگ کا حکم / کرپٹو کرنسی کی خرید وفروخت/ اسٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کاری کرنا


سوال

1۔ میں کسی صاحب کے ساتھ پارٹنر شپ میں آن لائن کام کر رہا ہوں،   جو کہ ڈراپ شپنگ کا کام ہے اس میں ہوتا یہ ہے کہ ہم کسی بھی بڑے سپر اسٹور جیسے ایمازون  یا وال مارٹ سے سامان اٹھاتے ہیں اور اس کو پیمنٹ کر دیتے ہیں، پھر ویب سائٹ  کے ذریعہ اشیاء  کی تصاویر کی بنیاد پر  کسٹمر کو فروخت کر دیتے ہیں،  اور جن اسٹور سے ہم نے مذکورہ اشیاء  خریدی ہوتی ہیں، وہیں سے وہ مال  ڈائریکٹ اٹھتا ہے اور جس کے پاس جانا ہوتا ہے اس کو ڈلیور ہو جاتا ہے،  فروختگی سے قبل مذکورہ اشیاء  ہمیں موصول نہیں ہوتیں، البتہ کسٹمر کی طرف سے جو پیمنٹ آتی ہے،  وہ نفع سمیت ہماری ہوتی ہے۔ 

اب پوچھنا یہ ہے شرعی لحاظ سے یہ کام صحیح ہے یا نہیں؟  جب کہ میں نے مولانا طارق مسعود صاحب سے سنا ہے کہ جب تک کوئی چیز آپ کے قبضہ میں نہ آجائے اسے آگے فروخت کرنا جائز نہیں ہوتا ۔

2۔ کرپٹو کرنسی کی ٹریڈنگ جائز ہے یا ناجائز ہے؟

3۔ اسٹاک ایکسچینج کا کام جائز ہے یا نہیں ؟

برائے مہربانی اس مسئلے میں رہنمائی فرمائے 

جواب

واضح  رہے کہ منقولہ اشیاء  کو خرید کر  اسے   آگے  فروخت کرنے سے قبل اس چیز کو اپنے قبضہ میں لینا شرعا ضروری  ہوتا ہے،  قبضہ سے قبل آگے فروخت کرنا شرعا ممنوع ہے، لہذا صورت مسئولہ میں ایمازون  یا وال مارٹ  سے اشیاء خریدنے کے بعد آگے فروخت  کرنے سے قبل اگر سائل کے لیے بذات خود قبضہ کرنا ممکن نہ ہو، تو  سائل کسی  اور کو اپنا وکیل مقرر کردے،  جو   سائل کی طرف سے سپلائر کمپنی سے سامان  لے لے، اور اس کے بعد  کسٹمر تک پہنچادے۔

رد المحتار علي الدر المختار  میں ہے:

"إذ من شرط المعقود عليه: أن يكون موجوداً مالاً متقوماً مملوكاً في نفسه، وأن يكون ملك البائع فيما يبيعه لنفسه، وأن يكون مقدور التسليم منح."

( کتاب البیوع، باب بیع الفاسد، ٥ / ٥٨، ط: دار الفكر)

تبیین  الحقائق شرح كنز الدقائق میں ہے :

"قال رحمه الله: (لا بيع المنقول) أي لا يجوز بيع المنقول قبل القبض لما روينا ولقوله عليه الصلاة والسلام "إذا ابتعت طعاما فلا تبعه حتى تستوفيه"۔ رواه مسلم وأحمد ولأن فيه غرر انفساخ العقد على اعتبار الهلاك قبل القبض؛ لأنه إذا هلك المبيع قبل القبض ينفسخ العقد فيتبين أنه باع ما لا يملك والغرر حرام لما روينا". 

(کتاب البیوع،  ٤ / ٨٠، ط: المطبعة الكبرى الأميرية، بولاق، القاهرة)

2۔ کرنسی کی خرید و فروخت کے لیے سودا کرنے والے دونوں افراد کا ایک مجلس میں ہونا، اور ہاتھ در ہاتھ ( نقد) سودا کرنا شرط ہے، پس فروخت کنندہ اور خریدار  اگر ایک مجلس میں  نہ ہوں تو ایسا سودا سودی ہونے کی وجہ سے ناجائز و حرام ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ مختلف  کرنسیوں کی آن لائن خرید وفروخت ناجائز ہے۔

کرپٹو کرنسی کی خرید وفروخت کے ناجائز ہونے کئی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ اس کے حصول کا دار مدار فاریکس ٹریدنگ پر ہے، جو سود سے خالی نہیں،  نیز   اسی طرح  کرپٹو کرنسی میں اضافہ کے لیے  آن چین مائننگ کا عموما طریقہ اختیار کیا جاتا ہے، جو جو اور سود سے خالی نہیں، جوا اس طور پر ہے کہ آن چین مائننگ کے دوران مائننگ کی گئی کل  رقم ڈوبنے کا  خطرہ ہوتا ہے، اور  مائننگ کے کامیاب ہونے کی صورت میں  زائد رقم ملنے کی امید ہوتی ہے۔

مزید دیکھیے:

(1)اسٹاک ٹریڈنگ اور (2)کرپٹو سپوٹ ٹریڈنگ کرنا حلال ہے یا حرام ؟

کرپٹو اور فیوچر ٹریڈنگ کا حکم

رد المحتار علي الدر المختار میں ہے:

"(قوله: لأنه يصير قمارًا) لأن ‌القمار من القمر الذي يزداد تارةً و ينقص أخرى، وسمي ‌القمار قمارًا لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص، و لا كذلك إذا شرط من جانب واحد لأن الزيادة و النقصان لاتمكن فيهما بل في أحدهما تمكن الزيادة، وفي الآخر الانتقاص فقط فلاتكون مقامرة لأنها مفاعلة منه زيلعي."

(كتاب الحظر والإباحة، فصل في البيع، ٦ / ٤٠٣، ط: دار الفكر)

أحکام القرآن للجصاص  میں ہے:

"ولا خلاف بين أهل العلم في تحريم القمار وأن المخاطرة من القمار، قال ابن عباس: إن المخاطرة قمار، وإن أهل الجاهلية كانوا يخاطرون على المال، والزوجة، وقد كان ذلك مباحاً إلى أن ورد تحريمه."

( باب تحریم المیسر، سورة البقرۃ، ١ / ٣٩٨، ط: دار الکتب العلمیة بیروت - لبنان)

رد المحتار علي الدر المختار میں ہے:

"(قوله لحصول الربا) فإن الزيادة حينئذ تكون فضلا مستحقا في عقد المعاوضة بلا مقابل وهو معنى الربا أو شبهه، ولشبهة الربا حكم الربا فتح."

(كتاب البيوع، باب خيار العيب، ٥ / ٢٠، ط: دار الفكر)

3۔ اسٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کاری کرنا  نہ تو مطلقًا حرام ہے، اور  نہ  ہی مطلقًا جائز ہے، اگر حصص کی خرید و فرخت کے وقت درج ذیل  شرائط کی پاس داری کرتے ہوئے  سرمایہ کاری کی جائے تو یہ سرمایہ کاری جائز ہوگی:

1-  حقیقی کمپنی کے شیئرز کی خریداری کی جائے، ورچوئل  کمپنی کے شیئرز کی خریداری نہ کی جائے۔

2-   حلال  سرمایہ  والی کمپنی کے شیئرز خریدے جائیں، بینک یا حرام کاروبار کرنے والے اداروں کے شیئرز کی خریداری نہ ہو۔

3-   کمپنی نے بینک سے سودی قرضہ نہ لیا ہو۔

4-  کمپنی  کا کاروبار حلال ہو۔

5-    اس کمپنی کے کل اثاثے نقد کی شکل میں نہ ہوں، بلکہ اس کمپنی کی ملکیت میں جامد اثاثے بھی موجود ہوں۔

6-  کمپنی کا سرمایہ حلال ہو۔

7-  شیئرز کی خرید و فروخت میں، خرید و فروخت کی تمام شرائط کی پابندی ہو۔

8-   کمپنی حاصل شدہ منافع کل کا کل شیئرز ہولڈرز میں تقسیم کرتی ہو۔

9-  شیئرز  اور اس کی قیمت کی ادائیگی  دونوں ادھار نہ ہو۔

10-  شیئرز کی خرید و فروخت میں جوے کی صورت نہ ہو۔

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144507101464

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں