بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کرپٹو اور فیوچر ٹریڈنگ کا حکم


سوال

کرپٹو  میں دو طریقے کی ٹریڈنگ ہوتی ہے،1.فیوچرز ٹریڈنگ 2. اسپاٹ ٹریڈنگ ،اب پوچھنا یہ ہے کہ فیوچر ٹریڈنگ جس کی صورت یہ ہوتی ہے مثلاً: ہمیں  100روپے کی چیز خریدنی ہے اور ہمارے پاس صرف  10روپے ہیں ،تو ہم ایکسچینج سے 90 روپے مانگ کر ٹریڈ کرتے ہیں،اس میں ہر آٹھ گھنٹے بعد کچھ فیس لی جاتی ہے جو فنڈنگ فیس کہلاتی ہے،اگر میں یہ ٹریڈنگ شروع کردوں اور ہر آٹھ گھنٹے سے پہلے کسی بھی حال میں ٹریڈ کو بند کر دوں(چاہے  مجھے ٹریڈنگ میں نقصان ہو یا نفع) تاکہ فنڈنگ فیس یا سود نہ دینا پڑے،کیا ایسا کرنا شرعاً جائز ہے؟

جواب

"بٹ کوئن"   (کرپٹو کرنسی ) یا "ڈیجیٹل کرنسی"جو محض فرضی ،تخیلی کرنسی ہے، اس میں حقیقی کرنسی کے بنیادی اوصاف اور شرائط بالکل نہیں پائی جاتیں ،اس وجہ سے موجودہ زمانے میں انٹرنیٹ اور الیکٹرونک مارکیٹ میں رائج  "بٹ کوئن"یا"ڈیجیٹل کرنسی" کی خرید  و فروخت ناجائز اور حرام ہے ،کیونکہ اس میں دھوکا دہی ہوتی ہے ، اور کسی حقیقی/ مادی چیز کا وجود نہیں ہوتا ،اور ثمن اور مبیع  پر بھی قبضہ نہیں پایاجاتا،جب کہ عقدِبیع کے صحیح ہونے کے لیےان شرائط کا پایا جانا ضروری ہوتا ہے ۔لہذا صورت ِ مسؤلہ میں فیوچر سیل کی جو صورت ذکر کی گئی ہے،چونکہ وہ بھی "بٹ کوئن "ہی کی ایک قسم ہے ،بٹ کوئن اوراس کے جملہ اقسام ہی کےخرید و فروخت ناجائز اور حرام ہے،لہذا سائل کے لیے کرپٹو  کا مذکورہ طریقہ کار کے مطابق کاروبار کرنا شرعًا ناجائز ہے۔

قرآن کریم میں باری تعالی کا فرمان ہے:

﴿وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا ﴾ [البقرة: 275]          

احکام القرآن للجصاص میں ہے:

"قال الله تعالى يا أيها الذين آمنوا لا تأكلوا أموالكم بينكم بالباطل إلا أن تكون تجارة عن تراض منكم قال أبو بكر قد انتظم هذا العموم النهى عن أكل مال الغير ومال نفسه كقوله تعالى ولا تقتلوا أنفسكم قد اقتضى النهي عن قتل غيره وقتل نفسه فكذلك قوله تعالى لا تأكلوا أموالكم بينكم بالباطل نهي لكل أحد عن أكل مال نفسه ومال غيره بالباطل وأكل مال نفسه بالباطل إنفاقه في معاصي الله وأكل مال الغير بالباطل قد قيل فيه وجهان أحدهما ما قال السدي وهو أن يأكل بالربا والقمار والبخس والظلم وقال ابن عباس والحسن أن يأكله بغير عوض."

( ج : 3،ص : 127 )

صحیح مسلم میں ہے:

"عن ابن عُمَرَ. قَالَ:كَانَ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ يَتَبَايَعُونَ لَحْمَ الْجَزُورِ إِلَى حَبَلِ الْحَبَلَةِ. وَحَبَلُ الْحَبَلَةِ أَنْ تُنْتَجَ النَّاقَةُ ثُمَّ تَحْمِلَ الَّتِي نُتِجَتْ. فَنَهَاهُمْ رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ذلك."

 ( كتاب البيوع ، باب تحريم بيع الحبل الحبلة، ج : 2، ص : 3 ، ط :قديمي )

بدائع الصنائع میں ہے:

" وأما الذي يرجع إلى المعقود عليه فأنواع (منها) : أن يكون موجودا فلا ينعقد بيع المعدوم، وماله خطر العدم كبيع نتاج النتاج بأن قال: بعت ولد ولد هذه الناقة وكذا بيع الحمل؛ لأنه إن باع الولد فهو بيع المعدوم، وإن باع الحمل فله خطر المعدوم، وكذا بيع اللبن في الضرع؛ لأنه له خطر لاحتمال انتفاخ الضرع ،"

(کتاب البیوع ،فصل في الشرط الذي يرجع إلى المعقود عليه،ج:5،ص138،ط:سعید) 

فتاوی شامی میں ہے :

"مطلب: ‌شرائط ‌البيع أنواع أربعة وذكر في البحر أن شرائط البيع أربعة أنواع: شرط انعقاد ونفاذ وصحة ولزوم. فالأول أربعة أنواع: في العاقد، وفي نفس العقد، وفي مكانه، وفي المعقود عليه."

(کتاب البیوع، ج : 4،ص: 504 ط:سعید)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144508101093

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں