بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

(1)اسٹاک ٹریڈنگ اور (2)کرپٹو سپوٹ ٹریڈنگ کرنا حلال ہے یا حرام ؟


سوال

(1)اسٹاک ٹریڈنگ اور (2)کرپٹو سپوٹ ٹریڈنگ کرنا حلال ہے یا حرام ؟تفصیل سے بیان فرما دیں۔

جواب

(1):۔اسٹاک ٹریڈنگ میں مختلف اشیاء(کرنسی،کپاس، گندم، گیس، خام تیل،جانور اور دیگر بہت سی اشیاء )کی خرید و فروخت ہوتی ہے،ہماری معلومات کے مطابق اس کاروبار کے جتنے طریقے رائج ہیں وہ سب شرعی اصولوں  کی مکمل رعایت نہ ہونے اوردرج ذیل شرعی مفاسد کے پائے جانے کی وجہ سے شرعًا جائز نہیں:

1۔  کرنسی کی لین دین کو شرعی اصطلاح میں بیع صرف کہتے، جس  میں دونوں جانب سے کرنسی پر مجلس میں قبضہ ضروری ہے جب کہ دونوں جانب سے یا کسی ایک جانب سے ادھار ناجائز ہے،لہذاایسے تمام سودے ناجائز ہیں  جن میں کرنسی کی خریدوفروخت ادھار ہوتی ہے  ،یا خرید و فروخت تونقد ہوتی ہے مگر عقد کے دونوں فریق  یا کوئی ایک فریق اپنی کرنسی پر قبضہ نہیں کرتا۔

2۔بیع ایجاب وقبول کے بعد  لازم ہوجاتی ہے اور اس کے بعد بائع(بیچنے والا) اور مشتری(خریدار) میں سے کسی کو یہ اختیار نہیں ہوتا کہ وہ دوسرے کی اجازت کے بغیر بیع کو ختم کرسکے،البتہ دونوں کی باہمی رضامندی سے بیع کو ختم کیا جاسکتا ہے،اسے شرعی اصطلاح میں اقالہ کہتے،البتہ بیع میں اقالہ کی شرط لگانے سے شرعی اعتبار سے بیع فاسد ہوجاتی ہے،لہذا مذکورہ کاروبار میں خریدار کو یہ حق دیناکہ وہ دوسرے کی رضامندی کے بغیر خود سے بیع کو فسخ (اقالہ)کرسکتا ہے،یہ شرط فاسد ہے ،اس کی بنا پر شرعی اعتبار سے یہ بیع(معاملہ)بھی فاسد ہوجاتا ہے،نیز خریدار کا بائع یعنی بیچنے والے کی رضامندی کے بغیر خود سے بیع کو فسخ کرنا بھی شرعا درست نہیں۔

3۔اسی طرح مستقبل کی تاریخ پر خرید وفروخت کرنے سے بھی شرعی اعتبار سے بیع منعقدنہیں ہوتی۔

4۔اس کاروبار میں خریدار بیعانہ کی ادائیگی کے بعد خریدی ہوئی چیز اپنے قبضہ میں لیے بغیر آگے فروخت کرسکتا ہے،جب کہ شرعی اصولوں کے مطابق خریدی ہوئی چیز اپنے قبضہ میں لیے بغیر آگے فروخت کرنا شرعا درست نہیں ہے۔

5۔نیز مذکورہ کاروبار میں خریدار کو اگر  اپنی خریدی گئی اشیاء میں نقصان ہونے لگے اور جب ان اشیاء کی قیمت کم  ہوکر بیعانہ کی رقم سے بھی گرنے لگےتو بروکر کو یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ اس(پہلے)سودے کو ختم کردے،جب کہ شریعت میں بروکر  کو اپنے عمل کی اجرت وصول کر لینے کے  بعد سودے میں کوئی حق اوراختیار نہیں ہوتا اوراگر کسی شخص نے کوئی چیز خریدی ہے تو اب  وہی اس کےنفع ونقصان کا ذمہ ہے ،نقصان دیکھ کر وہ سودے کو منسوخ  نہیں کرسکتا جب تک کہ دوسرے فریق کی رضامندی نہ ہو۔

لہذا مذکورہ کاروبار سے درج بالا شرعی مفاسد کی بنیاد پر  اجتناب کرنا چاہیے اور کوئی دوسرا جائز حلال کاروبار کرنا چاہیے۔

(2):۔کرپٹوکرنسی "بٹ کوائن "محض ایک فرضی کرنسی ہے، اس میں حقیقی کرنسی کے بنیادی اوصاف اور شرائط موجود نہیں ہیں، لہذا موجودہ  زمانے میں " کوئن" یا "ڈیجیٹل کرنسی" کی خرید و فروخت کے نام سے انٹرنیٹ پر اور الیکٹرونک مارکیٹ میں جو کاروبار چل رہا ہے وہ حلال اور جائز نہیں ہے، اس میں حقیقت میں کوئی مادی چیز نہیں ہوتی، اور اس میں قبضہ بھی نہیں ہوتا صرف اکاؤنٹ میں کچھ عدد آجاتے ہیں، اس لیے " بٹ کوائن" یا کسی بھی " ڈیجیٹل کرنسی" کے نام نہاد کاروبار میں پیسے لگانا اور خرید و فروخت میں شامل ہونا جائز نہیں ہے،اور نہ ہی سپاٹ ٹریڈنگ (کم قیمت میں خرید کر زیادہ قیمت پر بیچنا)جائز ہے۔

قرآن مجید میں ہے:

"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ." ﴿المائدة: ٩٠﴾

ترجمہ:" اے ایمان والو :بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور بت وغیرہ اور قرعہ کے تیر یہ سب گندی باتیں شیطانی کام  ہیں ،سواس سے بالکل الگ رہو،تاکہ تم کو فلاح ہو"۔(بیان القرآن)

حدیث شریف میں ہے:

"وقال رسول الله صلي الله عليه وسلم:إن الله حرّم أمتي الخمر و الميسر."

(المسند للامام احمد، ج:2، ص:124،ط: مؤسسة الرسالة)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(وأما شرائطه) فمنها قبض البدلين قبل الافتراق كذا في البدائع سواء كانا يتعينان كالمصوغ أو لا يتعينان كالمضروب أو يتعين أحدهما ولا يتعين الآخر كذا في الهداية وفي فوائد القدوري المراد بالقبض ههنا القبض بالبراجم لا بالتخلية يريد باليد كذا في فتح القدير."

(کتاب الصرف، ج:3، ص:217، ط؛دار الفکر)

وفیہ ایضاً:

"وشرط صحة الإقالة رضا المتقائلين والمجلس وتقابض بدل الصرف في إقالته وأن يكون المبيع محل الفسخ بسائر أسباب الفسخ كالرد بخيار الشرط والرؤية والعيب عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - فإن لم يكن بأن ازداد زيادة تمنع الفسخ بهذه الأسباب لا تصح عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - وقيام المبيع وقت الإقالة فإن كان هالكا وقت الإقالة لم تصح."

(باب الاقالة، ج:3، ص:157، ط:دار الفکر)

وفیہ ایضاً:

"إن ذكرا ‌شرط ‌الفسخ في البيع فسد البيع."

(الباب العشرون فی البیاعات المکروھة،ج:3، ص:209، ط؛دار الفکر)

وفیہ ایضاً:

"وإذا عرفت المبيع والثمن فنقول من حكم المبيع إذا كان منقولا أن لا يجوز بيعه قبل القبض."

(کتاب البیوع، ج:3، ص:13، ط:دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وما لا تصح) إضافته (إلى المستقبل) عشرة (البيع، وإجازته، وفسخه، والقسمة والشركة والهبة والنكاح والرجعة والصلح عن مال والإبراء عن الدين) لأنها تمليكات للحال فلا تضاف للاستقبال كما لا تعلق بالشرط لما فيه من القمار."

(کتاب البیوع،باب المتفرقات،ج:5، ص:257، ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"لأن القمار من القمر الذي يزداد تارة وينقص أخرى، وسمي القمار قمارا لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص."

(كتاب الحظر والإباحة ، فصل في البيع، ج: 6، ص: 403، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507101908

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں