اسلام میں عورتوں کا چار دیواری میں رہنا ہی پسند کیا گیا ہے، تو ہماری باپردہ عورتیں چاہے وہ دنیا کے کسی بھی شعبہ سے تعلق رکھتی ہوں سوشل میڈیا پر نظر نہیں آتیں، جس کی وجہ سے لوگوں کے ذہنوں میں یہ تاثر ہے کہ پردہ دار لڑکیاں دنیاوی علوم سے فارغ ہیں۔ اوربالکل اسی طرح ہمارے پڑھے لکھے اعلیٰ عہدوں اور کاروبار والے دیندار حضرات بھی سوشل میڈیا پر بھی نہیں ہیں، جس کی وجہ سے عوام میں یہ تاثر ہے کہ مولوی صرف مسجد کی حدتک ہوتا ہے، اس کو دنیا کا کچھ پتا نہیں ہوتا۔
اب میرا سوال یہ ہے کہ سوشل میڈیا وہ واحد میدان ہے جس پر کفار سب سے زیادہ ہمارے ایمان پر حملے کررہے ہیں، کیا اس میدان کو خالی چھوڑ دینا درست ہے؟ (اس سوچ کی وجہ سے کہ چوں کہ اس کے استعمال میں فتنے بہت ہیں، جبکہ ہماری نسلیں برباد ہورہی ہیں۔) عورتوں کے لیے گھر کی چار دیواری ہی بہتر ہے، لیکن جب جنگ میں ضرورت پڑی تو صحابیات لڑنے بھی میدان میں اتری تھیں۔کیا اب وہ وقت نہیں آگیا کہ ہماری اعلیٰ تعلیم یافتہ ، مختلف عہدوں کی حامل بہنیں پردے کے ساتھ میڈیا میں آکر مسلمان عورتوں کے وقار کا باعث بنیں؟ میں امید کرتی ہوں کہ مجھے تسلی بخش تفصیلی جواب دیاجائے گا۔جزاکم اللہ خیرا
واضح رہے کہ دین کی تبلیغ اور وعظ ونصیحت کے لیے ناجائز ذرائع اور غیرشرعی طریقے استعمال کرنا شرعًا ممنوع ہے،کوئی بھی مسلمان خواہ مرد ہو یا عورت خود کو معاصی اور گناہوں میں مبتلا کرکے دین کی دعوت یا شکوک وشبہات دفع کرنے کا مکلف نہیں، اس بارے میں محدث العصرحضرت مولانا محمدیوسف بنوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :
” ہم لوگ (مسلمان) اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس بات کے مکلف نہیں ہیں کہ جس طرح بھی ممکن ہو لوگوں کو پکا مسلمان بناکر چھوڑیں گے، ہاں! اس بات کے مکلف ضرور ہیں کہ تبلیغِ دین کے لیے جتنے جائز ذرائع اور وسائل ہمارے بس میں ہیں، ان کو اختیار کرکے اپنی پوری کوشش صرف کردیں، اسلام نے جہاں ہمیں تبلیغ کا حکم دیا ہے، وہاں تبلیغ کے باوقار طریقے اور آداب بھی بتائے ہیں، ہم ان آداب اور طریقوں کے دائرے میں رہ کر تبلیغ کے مکلف ہیں، اگر ان جائز ذرائع اور تبلیغ کے ان آداب کے ساتھ ہم اپنی تبلیغی کوششوں میں کامیاب ہوتے ہیں تو یہ عین مراد ہے، لیکن اگر بالفرض ان جائز ذرائع سے ہمیں مکمل کامیابی حاصل نہیں ہوتی تو ہم اس بات کے مکلف نہیں ہیں کہ ناجائز ذرائع اختیار کرکے لوگوں کو دین کی دعوت دیں اور تبلیغ کے آداب کو پسِ پشت ڈال کر جس جائز وناجائز طریقے سے ممکن ہو، لوگوں کو اپنا ہم نوا بنانے کی کوشش کریں، اگر جائز وسائل کے ذریعے اور آدابِ تبلیغ کے ساتھ ہم ایک شخص کو دین کا پابند بنادیں گے تو ہماری تبلیغ کامیاب ہے اور اگر ناجائز ذرائع اختیار کرکے ہم سو آدمیوں کو بھی اپنا ہم نوا بنالیں تو اس کامیابی کی اللہ کے یہاں کوئی قیمت نہیں، کیوں کہ دین کے احکام کو پامال کر کے جو تبلیغ کی جائے گی وہ دین کی نہیں کسی اور چیز کی تبلیغ ہوگی۔“
( از محدث العصر مولانا سید محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ،بحوالہ نقوشِ رفتگاں، ص:104ط: مکتبۂ معارف القرآن)
لہذا صورت مسئولہ میں مسلمان عورت کا اصلاح امت اور فلاحِ ملت کی نیت سے سوشل میڈیا پر آنا خواہ باپردہ ہی کیوں نہ ہوشریعت کی رو سے جائز اور درست نہیں ۔ کیوں کہ سوشل میڈیا کے ذریعہ عملی کردار تصویر سازی پر منحصر ہے، اور کسی شدید ضرورت کے بغیر جان دار کی تصویر (خواہ عام تصویر ہو یا ڈیجیٹل تصویر ہو)بنانا حرام اور کبیرہ گناہ ہے،سوشل میڈیا وغیرہ پر نشر کی جانے والی تصاویراور ویڈیوز کسی بھی طرح ضرورت کے دائرہ میں داخل نہیں ہوتیں، لہذا اُس کی حرمت برقرار رہتی ہے۔ اور سوشل میڈیا کے میدان میں قدم رکھنے والے ہر ایک شخص کو لامحالہ اِس غیر شرعی اور ناجائزامر کا ارتکاب کرنا پڑتا ہے، لہذا سوشل میڈیا پر آنے والی مسلمان عورت خواہ با پردہ ہو یا بے پردہ بہرصورت تصویر کشی کے گناہ میں ضرور مبتلاء ہوگی۔نیز تبلیغ دین کی نیت سےاگر شرعی دائرہ کار کے مطابق ویڈیوز وغیرہ اپلوڈ کی جائیں ، تب بھی ان ویڈیوز پر ویب سائٹس انتظامیہ کی طرف سے چلائے جانے والے غیرشرعی اور بے ہودہ مناظر پر مشتمل ایڈز وغیرہ کو روکنا محال ہے۔
حضرت مولانا محمدیوسف لدھیانوی شہیدؒفرماتے ہیں:" کسی ملعون چیز کو کسی نیک کام کا ذریعہ بنانا بھی درست نہیں۔ مثلاً شراب سے وضو کرکے کوئی شخص نماز پڑھنے لگے ۔"(آپ کے مسائل اور ان کا حل ہےجلد ہشتم صفحہ435، طبع :مکتبہ لدھیانوی) ۔چنانچہ مسلمان عورت کے ذمہ اپنے اہل و عیال اور بچوں کی تربیت کرنا لازم ہے، کل قیامت میں اسی ذمہ داری کے بارے میں سوال ہوگا۔صحیح بخاری کی ایک حدیث ہے:
"عن ابن عمر رضي الله عنهما، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «كلكم راع وكلكم مسئول عن رعيته، والأمير راع، والرجل راع على أهل بيته، والمرأة راعية على بيت زوجها وولده، فكلكم راع وكلكم مسئول عن رعيته."
(كتاب النكاح، باب: المرأة راعية في بيت زوجها، رقم الحديث:5200، ج:7، ص:31، ط:دارطوق النجاة)
ترجمہ:حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا : تم میں سے ہر ایک حاکم ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا۔ اورامیر (اپنی رعایا پر)حاکم ہے، مرد اپنے گھر والوں پر حاکم ہے۔ عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچوں پر حاکم ہے۔ تم میں سے ہر ایک حاکم ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا۔
نیزسوشل میڈیا کے ذریعہ امت کی اصلاح میں فکر مند مسلمان مائیں بہنیں اگر اپنے اہل و عیال ، بال بچوں کی اصلاح و تربیت کی ذمہ داریاں کماحقہ ادا کریں تو ان شاءاللہ تعالیٰ ہماری نوجوان نسلیں سوشل میڈیا کے مُضر اثرات سے محفوظ رہیں گی۔ ایک مسلمان عورت کا وقار بھی انہی افعال و اعمال پر کاربند رہنے میں ہے جو شریعت کے دائرہ میں اُس کے ذمہ لازم ہوتے ہیں، مغرب کے متعین کردہ معیارات میں مسلمان عورت کا نہ وقار ہے اور نہ ہی کامیابی ہے۔باقی صحابیات رضی اللہ عنہن کی کفار کے خلاف میدان جنگ میں شرکت زخمیوں کے دیکھ بھال اور مرہم پٹی کے لیے تھی باقاعدہ جہاد میں دشمنوں کے ساتھ مقابلہ کے لیے نہیں تھی، اسی لیےشریعت کی رو سے عورتوں پر جہاد کے لیے نکلنا ضروری نہیں ہےاور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کے لیے "حج" کو جہاد کے برابر قرار دیا ہے۔
صحیح بخاری میں حدیث ہے:
"عن عائشة أم المؤمنين رضي الله عنها، قالت: قلت يا رسول الله، ألا نغزو ونجاهد معكم؟ فقال: «لكن أحسن الجهاد وأجمله الحج، حج مبرور»، فقالت عائشة «فلا أدع الحج بعد إذ سمعت هذا من رسول الله صلى الله عليه وسلم»."
(باب حج النساء،رقم الحديث:1861، ج:3، ص:19، ط:دارطوق النجاة)
ترجمہ:" حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ! کیا ہم (عورتیں) آپ کے ساتھ جہاد اور لڑائی میں شریک نہ ہوں؟ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: نہیں، البتہ بہترین اور خوب صورت جہاد حج ہے، یعنی مقبول حج۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: چناں چہ میں حج نہیں چھوڑتی جب سے میں رسول اللہ ﷺ سے یہ بات سنی۔ "
بہرکیف صحابیات رضی اللہ عنہن کے عمل پر قیاس کرکے سوشل میڈیا پر مسلمان عورت کے آنے کا جواز تلاشنا درست نہیں ہے۔
مذکورہ معاملہ سے متعلق مزید تفصیل کے لیے ویب سائٹ پر موجود مندجہ ذیل فتاویٰ اورمضامین کا مطالعہ کیاجائے:
عورت کی آواز اور ویڈیوز اپ لوڈ کرنے کا حکم
ٹک ٹاک پر اسلامی چینل بناکر چلانا
اکابر دیوبند اورالیکٹرانک میڈیا کے ذریعہ تبلیغ اسلام کی حقیقت
جدید ذرائع ابلاغ کے ذریعہ تبلیغِ دین!
صحیح مسلم میں ہے:
"عن نافع، أن ابن عمر أخبره، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " الذين يصنعون الصور يعذبون يوم القيامة، يقال لهم: أحيوا ما خلقتم".
(كتاب اللباس والزينة،باب لا تدخل الملائكة بيتا فيه كلب ولا صورة،ج:3، ص:1669، ط:دار إحياء التراث العربي)
ترجمہ:" سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو لوگ تصویریں بناتے ہیں ان کو قیامت میں عذاب ہو گا، ان سے کہا جائے گا زندہ کرو ان کو جن کو تم نے بنایا۔"
شرح النووی على مسلم میں ہے:
"قال أصحابنا وغيرهم من العلماء: تصوير صورة الحيوان حرام شديد التحريم وهو من الكبائر لأنه متوعد عليه بهذا الوعيد الشديد المذكور في الأحاديث وسواء صنعه بما يمتهن أو بغيره فصنعته حرام بكل حال."
(كتاب اللباس و الزينة، باب تحريم تصوير صورة الحيوان، 14/ 81، ط:دار إحياء التراث العربي)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"کل أمر بمعروف یتضمن منکراً یسقط وجوبه، کذا في الوجیز للکردري."
(الفتاوی الھندیة، کتاب الکراھیة، الباب الرابع في الصلاة والتسبیح (5/ 317)،ط. رشيديه)
فتاوی شامی میں ہے:
"وصوتها على الراجح وذراعيها على المرجوح.
(قوله: وصوتها) معطوف على المستثنى يعني أنه ليس بعورة ح (قوله: على الراجح) عبارة البحر عن الحلية أنه الأشبه. وفي النهر وهو الذي ينبغي اعتماده. ومقابله ما في النوازل: نغمة المرأة عورة، وتعلمها القرآن من المرأة أحب. قال عليه الصلاة والسلام: «التسبيح للرجال، والتصفيق للنساء» فلايحسن أن يسمعها الرجل. اهـ. وفي الكافي: ولاتلبي جهرًا لأن صوتها عورة، ومشى عليه في المحيط في باب الأذان بحر. قال في الفتح: وعلى هذا لو قيل إذا جهرت بالقراءة في الصلاة فسدت كان متجها، ولهذا منعها عليه الصلاة والسلام من التسبيح بالصوت لإعلام الإمام بسهوه إلى التصفيق اهـ وأقره البرهان الحلبي في شرح المنية الكبير، وكذا في الإمداد؛ ثم نقل عن خط العلامة المقدسي: ذكر الإمام أبو العباس القرطبي في كتابه في السماع: ولا يظن من لا فطنة عنده أنا إذا قلنا صوت المرأة عورة أنا نريد بذلك كلامها، لأن ذلك ليس بصحيح، فإذا نجيز الكلام مع النساء للأجانب ومحاورتهن عند الحاجة إلى ذلك، ولا نجيز لهن رفع أصواتهن ولا تمطيطها ولا تليينها وتقطيعها لما في ذلك من استمالة الرجال إليهن وتحريك الشهوات منهم، ومن هذا لم يجز أن تؤذن المرأة. اهـ. قلت: ويشير إلى هذا تعبير النوازل بالنغمة."
(کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، ج:1، ص:406، ط:سعید)
وفيه ايضا:
"(لا) يفرض(على صبي)...(وعبد وامرأة) لحق المولى والزوج ومفاده وجوبه لو أمرها الزوج به فتح. وعلى غير المزوجة نهر.
"وفي الرد:(قوله ومفاده إلخ) أي تعليل عدم وجوبه كفاية على العبد والمرأة بكونه حق المولى، والزوج أي حق مخلوق فيقدم على حق الخالق لاحتياج المخلوق واستغناء الخالق تعالى يفيد وجوبه كفاية على المرأة لو أمرها به الزوج لارتفاع المانع من حق الخالق تعالى وكذا غير المزوجة لعدم المانع من أصله، ومثله العبد لو أمره به مولاه لكن سكت عنه لظهور وجوبه كفاية على العبد بإذن مولاه، بخلاف المرأة ولو غير مزوجة؛ لأنها ليست من أهل القتال لضعف بنيتها قال في الهداية في فصل قسمة الغنيمة: ولهذا أي لعجزها عن الجهاد لم يلحقها فرضه؛ ولأنها عورة كما في القهستاني عن المحيط قال فلا يخص المزوجة كما ظن، وبه ظهر الفرق وهو أن عدم وجوبه على العبد لحق المولى فإذا زال حقه بإذنه ثبت الوجوب، بخلاف المرأة فإنه ليس لحق الزوج بل لكونها ليست من أهله ولذا لم يجب على غير المزوجة (قوله وفي البحر إلخ) مراد صاحب البحر مناقشة الفتح في دعواه الوجوب على المرأة لو أمرها الزوج بناء على أن المراد وجوبه عليها بسبب أمره لها، وفيه أن مراده الوجوب بأمره تعالى لا بأمر الزوج، بل هو إذن وفك للحجر كما أفاده ح. وقد علمت عدم وجوبه عليها أصلا إلا إذا هجم العدو كما يأتي."
(كتاب الجهاد، ج:4، ص:125، ط:سعيد)
احسن الفتاوی میں ہے:
"اصلاح وتبلیغ کی نیت سے معصیت کاارتکاب ہر کز جائز نہیں، جب ارشاد وتبلیغ سے مقصد اللہ تعالی کی رضا ہے تو اس مقصد کی تحصیل کے لیے اس کی معصیت کا کیا مطلب؟"
(متفرقات الحظر والاباحہ، ج8:، ص190، ط:سعید)
آپ کے مسائل اور ان کا حل میں ہے:
"آپ کے ذہن میں رہنا چاہیے کہ دینِ اسلام دینِ ہدایت ہے، جس کی دعوت وتبلیغ کے لیے اللہ تعالی نے حضرات انبیاء علیہم السلام کو مبعوث فرمایا اور آن حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرات صحابہ کرام نے، حضرات تابعین نے ائمہ دین نے علمائے امت نے اس فریضے کو ہمیشہ انجام دیا، ہدایت پھیلانے کا کام انہی حضرات کے نقش قدم پر چل کر ہوسکتاہے، ان کے راستے سے ہٹ کر نہیں ہوسکتا، تبلیغ دین کے لیے ایسے ذرائع اختیار کرنے کی اجازت ہےجو بذات خود مباح اور جائز ہوں، حرام اور ناجائز ذرائع اختیار کرکےہدایت پھیلانے کا کام نہیں ہوسکتا، کیوں کہ ناجائز ذرائع خود شر ہیں، شر کے ذریعہ شر تو پھیل سکتاہے،شر کے ذریعہ خیر اور ہدایت کو پھیلانے کا تصور غلط ہے۔"
( ج:8، ص:431، ط:مکتبہ لدھیانوی)
امداد الفتاوی میں ہے:
"سوال : میں نے اپنے گھر میں عرصہ سے تجوید بقدر احتیاج سکھائی ہے، اللہ کا شکرہے باقاعدہ پڑھنے لگی ہیں، جن لوگوں کو اِس اَمر کی اِطلاع ہے وہ کبھی آکر یوں کہتے ہیں کہ ہم سننا چاہتے ہیں، اور ہیں معتمد لوگ ، تو پردہ میں سنوا دینا جائز ہے یا نہیں ؟ اگرچہ ایسا کیا نہیں، بعد علم جیسا ہوگا ویسا کروں گا۔
الجواب : ہرگز جائز نہیں۔لأنه اسماع صوت المرأة بلاضرورة شرعية( کیونکہ یہ عورت کی آواز کو بغیر شرعی ضرورت کے سنانا ہے)۔"
( امداد الفتاوی، 4/200، ط: دارالعلوم کراچی)
واللہ تعالیٰ اعلم
فتوی نمبر : 144603102151
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن