بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عورت کی آواز اور ویڈیوز اپ لوڈ کرنے کا حکم


سوال

 میرے  سوال کے دو حصے ہیں: پہلا تو یہ کہ کیا خواتین سوشل میڈیا پر اپنی آواز استعمال کر سکتی ہیں؟ جب کے آواز کا مقصد خوبصورت بنا کر استعمال کرنا نه  ہو بلکہ کوئی  انفارمیشن پہنچانی ہو یا پھر روز مرہ کی گفتگو میں آواز ہو؟

دوسری بات یہ کہ خواتین کے لیے تصاویر سوشل میڈیا پر اپلوڈ کرنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟ جب کے وہ پورے شرعی پردے میں ہوں؟ جیسا کہ آج کل انسٹاگرام پر بلاگنگ ہوتی ہے۔ اور خواتین پردے میں کبھی اپنی تصاویر لگاتی ہیں اور روز مرہ کی ویڈیوز بھی جس میں وہ پردے میں ہوں۔ غالب امکان یہی ہے کہ اکاؤنٹ میں دیکھنے والی زیادہ تعداد خواتین کی ہی ہوتی ہے مگر کچھ نا کچھ مرد بھی ہو سکتے ہیں ، اکا دکا ہی سہی۔ ایسے میں خواتین کا اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس میں  باپردہ تصاویر اور ویڈیوز شئیر کرنا جائز ہو گا؟

جواب

واضح رہے کہ عورت کے لیے ضرورت کے موقع پر مردوں سے بات کرنا جائز ہے، اس لیے کہ راجح قول کے مطابق عورت کی آواز ستر میں داخل نہیں ہے  لیکن عوارض کی وجہ سے بعض جائز اُمور کا ناجائز ہوجانا فقہ میں معروف و مشہور ہے؛اِس لیے اگر شرعی ضرورت نہ ہو تو چوں کہ فتنہ کا غلبہ ہے، اس لیے عورت کی آواز کا بھی غیر محرم سے پردہ ہے۔

نیز عورت کا غیر محرم سے  ضرورت اور مجبوری کی صورت میں بات  کرنے  کے لیے  بھی یہ ضروری ہے وہ اپنی آواز کو پرکشش نہ بنائے، نرم لہجہ میں بات نہ کرے، بلکہ سخت لہجے میں بات کرے، مختصر بات کرکے بات ختم کردے، جیساکہ قرآنِ پاک  (سورہ احزاب) میں ازواجِ مطہرات  رضی اللہ عنہن کو  (امہات المؤمنین ہونے کےباجود) ہدایت کی گئی کہ اگر کسی امتی سے بات چیت کی نوبت آجائے تو نرم گفتگو نہ کرے؛ مبادا اس شخص کے دل میں کوئی طمع نہ پیدا ہوجائے جو دل کا مریض ہو، بلکہ صاف اور دوٹوک بات کہے۔ لہٰذا عورت کے لیے اپنی آواز ریکارڈ کراکے سوشل میڈیا پر جاری کرنا شرعاً جائز نہیں۔

اسی طرح شریعت مطہرہ میں کسی شدید ضرورت کے بغیر  جان دار کی تصویر سازی جائز نہیں ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں عورت کی  تصاویر یا تصاویر  پر مشتمل ویڈیوز اپ لوڈ کرنے میں درج ذیل خرابیاں موجود ہیں:

1۔۔   اس میں جان دار کی تصویر سازی اور ویڈیو سازی  ہے جو شرعاً ناجائز اور حرام ہے۔

2۔۔  وہ ویڈیوز مرد بھی دیکھیں گے، اور نامحرم کو دیکھنا جائز نہیں ہے، اس لیے اس کا سبب بننا بھی جائز نہیں ہے۔

3۔۔  یہ بلا ضرورت عورت کی آواز مردوں کو سنانا ہے۔

4۔۔ اور اگر اس میں میوزک بھی شامل ہو تو یہ ایک مزید قباحت ہے، اور اس کی ناجائز ہونے کی ایک مستقل وجہ ہے۔

حدیث شریف میں ہے :

"وعن عبد الله بن مسعود قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «‌أشد ‌الناس ‌عذابا عند الله المصورون."

(کتاب اللباس،باب التصاویر،ج:۲،ص:۱۲۷۴،المکتب الاسلامی)

فتاوی شامی میں ہے :

"وظاهر كلام النووي في شرح مسلم الإجماع على تحريم تصوير الحيوان، وقال: وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته حرام بكل حال لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى، وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم وإناء وحائط وغيرها اهـ."

(کتاب الصلاۃ،باب مایفسد الصلاۃومایکرہ فیہا،ج:۱،ص:۶۴۷،سعید)

احکام القرآن للجصاص میں ہے :

"وقوله تعالى"ولا يضربن بأرجلهن ليعلم ما يخفين من زينتهن" روى أبو الأحوص عن عبد الله قال: ‌هو ‌الخلخال وكذلك قال مجاهد، إنما نهيت أن تضرب برجلها ليسمع صوت الخلخال وذلك قوله "ليعلم ما يخفين من زينتهن" قال أبو بكر: قد عقل من معنى اللفظ النهي عن إبداء الزينة وإظهارها لورود النص في النهى عن سماع صوتها إذ كان إظهار الزينة أولى بالنهي مما يعلم به الزينة فإذا لم يجز بأخفى الوجهين لم يجز بأظهر هما وهذا يدل على صحة القول بالقياس على المعاني التي قد علق الأحكام بها وقد تكون تلك المعاني تارة جلية بدلالة فحوى الخطاب عليها وتارة خفية يحتاج إلى الاستدلال عليها بأصول أخر سواها وفيه دلالة على أن المرأة منهية عن رفع صوتها بالكلام بحيث يسمع ذلك الأجانب إذ كان صوتها أقرب إلى الفتنة من صوت خلخالها ولذلك كره أصحابنا أذان النساء لأنه يحتاج فيه إلى رفع الصوت والمرأة منهية عن ذلك وهو يدل أيضا على حظر النظر إلى وجهها للشهوة إذ كان ذلك أقرب إلى الريبة وأولى بالفتنة."

(ج:۵،ص:۱۷۷،داراحیاء التراث العربی)

فتاوی شامی میں ہے :

"وصوتها على الراجح وذراعيها على المرجوح.

(قوله: وصوتها) معطوف على المستثنى يعني أنه ليس بعورة ح (قوله: على الراجح) عبارة البحر عن الحلية أنه الأشبه. وفي النهر وهو الذي ينبغي اعتماده. ومقابله ما في النوازل: نغمة المرأة عورة، وتعلمها القرآن من المرأة أحب. قال عليه الصلاة والسلام: «التسبيح للرجال، والتصفيق للنساء» فلايحسن أن يسمعها الرجل. اهـ. وفي الكافي: ولاتلبي جهرًا لأن صوتها عورة، ومشى عليه في المحيط في باب الأذان بحر. قال في الفتح: وعلى هذا لو قيل إذا جهرت بالقراءة في الصلاة فسدت كان متجها، ولهذا منعها عليه الصلاة والسلام من التسبيح بالصوت لإعلام الإمام بسهوه إلى التصفيق اهـ وأقره البرهان الحلبي في شرح المنية الكبير، وكذا في الإمداد؛ ثم نقل عن خط العلامة المقدسي: ذكر الإمام أبو العباس القرطبي في كتابه في السماع: ولا يظن من لا فطنة عنده أنا إذا قلنا صوت المرأة عورة أنا نريد بذلك كلامها، لأن ذلك ليس بصحيح، فإذا نجيز الكلام مع النساء للأجانب ومحاورتهن عند الحاجة إلى ذلك، ولا نجيز لهن رفع أصواتهن ولا تمطيطها ولا تليينها وتقطيعها لما في ذلك من استمالة الرجال إليهن وتحريك الشهوات منهم، ومن هذا لم يجز أن تؤذن المرأة. اهـ. قلت: ويشير إلى هذا تعبير النوازل بالنغمة."

(کتاب الصلاۃ،باب شروط الصلاۃ،ج:۱،ص:۴۰۶،سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310100486

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں