بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قرض کی ادائیگی کے لیے بینک سے سودی قرضہ لینا


سوال

میں ان دنوں قرض کی وجہ سے کافی مشکلات کا شکار ہوں اور تقریبًا سولہ  لاکھ کا مقروض ہو چکا ہوں، گزشتہ چند سالوں سے قرض کی رقم ایک جگہ سے اٹھا کر  دوسری جگہ ادا کر رہا ہوں اور بالآخر اتنی زیادہ  رقم کا مقروض ہو گیا ہوں کہ مہنگی اشیاء اُدھار اٹھا کر سستی فروخت کرنے پر مجبور ہو ں؛ تاکہ  گردشی قرضے کو کنٹرول کر سکو ں اور معاشرے میں میری عزت محفوظ  رہے اور نوکری بھی، مگر اب مجھےمعاملات کے پیشِ نظر نوکری سے بھی فارغ کر دیا گیا ہے، حالاں  کہ  میری نیت مکمل صاف تھی اور ہے۔

جنابِ عالی ! میں اللہ کے حضور کافی توبہ استغفار کر رہا ہوں ۔ جواب  طلب معاملہ  یہ ہے کہ میرے ایک انتہائی  مخلص دوست کی ایک پراپرٹی ہے، جس میں وہ اپنا کاروبار کر رہے ہیں،  ہم نے چند دِن پہلے ایک بینک سے رجوع کیا تاکہ پراپرٹی گروی رکھوا کر بینک سے امانتاً سولہ  لاکھ قرض لے لیں جو کہ مکمل کاغذی  کاروائی کے بعد  ہمارے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کر دی جائے گی ۔بینک کہتا ہے کہ آپ اس رقم سے کاروباری فوائد حاصل کریں اور جو رقم آپ استعمال کریں گے اس کا  14فیصد سالانہ بینک کو ادا کرنا ہوگا ، لیکن ایک سہولت  یہ بھی دی  گئی کہ آپ جتنی رقم استعمال کرتے ہیں،  اتنا ہی مارک اَپ ادا کرنا ہوگا یعنی سولہ  لاکھ میں سے اگر آپ نے دس  لاکھ استعمال کیا تو سولہ  لاکھ کے بجائے دس  لاکھ پر ہی مارک اَپ ہو گا،   جب کہ میرا مقصد اس رقم سے اپنا قرضہ اتارنا ہے ،جس کا ماہانہ مجھے تقریبًا 14000روپے مارک اَپ ادا کرنا ہو گا ، اگر میں اضافی رقم جمع کرواؤں  تو قرض کم بھی ہوگا اور مارک اَپ بھی۔
اب سوال یہ ہے کہ اس رقم سے تو قرض اتر گیا،  اب  قِسط کی یا لون واپسی کے لیے  سورس آف اِنکم کیا ہو گا ؟   تو میرا ایونٹ مینیجمنٹ کمپنی میں  8  سال کا تجربہ ہے اور میں حال ہی میں ایک میرج ہال میں بطور جنرل مینیجر کام کر رہا تھا ۔ میرے اس تجربہ و صلاحیت (بفضلِ خدا)کے پیشِ نظر ایک بھائی نے کیٹرنگ کا کاروبا شروع کر کے دینے کا عملًا وعدہ کیا ہے، جس سے میں ماہانہ کی بنیاد پر ایک اچھا منافع کما سکتا ہوں اور اس طرح جلد میرا قرض اتر جاۓ گا ان شاءللہ اور مجھے  25 لوگوں کے بجائے صرف ایک ہی جگہ پر قرضے کی واپسی کرنی ہوگی،  دوسری طرف صورتِ حال یہ ہے کہ قرض دینے  والے کسی بھی صورت صبر نہیں کر رہے اور طرح طرح سے ٹارچر کر رہے ہیں؛  لہذا ہر طرف سے مایوسی کے بعد میں نے یہ سوچا کہ بینک سے قرض لےلوں اور بینک کا قرضہ 2 سال کے اندر اندر  اپنی خالص حلال رقم سے شروع کیے  گئے بزنس  کے منافع  سے باآسانی اتار سکتا ہوں۔

کیا میں خالص نیک نیتی اور انتہائی مجبوری کے پیشِ نظر بینک سے لمٹ لون لے سکتا ہوں ،اس پر کوئی گناہ تو نہیں یا اس دوست پر جس کی پراپرٹی کے عوض یہ لون لیا جا رہا ہے؟

جواب

 سود  لینا اور  سود  دینا  دونوں  قرآن و حدیث کی قطعی نصوص سے حرام ہیں، حدیثِ  مبارک میں  سودی لین دین کرنے والوں پر لعنت کی  گئی ہے، اور بینک  سے   ملنے والا قرض سراسر سود پر مشتمل ہوتا ہے، اور بینک سے قرض لینا سودی معاملہ ہے،  اور سودی قرض لینا جائز نہیں  ۔

صورتِ مسئولہ میں اگر آپ بینک سے قرضہ لے کر واپسی میں مذکورہ لی گئی قرض کی رقم کے علاوہ  مقرر کردہ  مارک اَپ بھی بینک کو ادا کریں گے تو یہ سود کے زُمرے میں شمار ہونے کی وجہ سے ناجائز اور حرام ہے؛ کیوں  کہ قرض خواہ کا قرض دے کر قرض دار سے اُس قرض کے بدلے میں  اضافی رقم وصول کرنا یہ سود ہے،  جو کہ حرام ہے۔

لہٰذا آپ کا مقصد  چوں کہ قرض کی ادائیگی ہی ہے تو کوشش کرکے اپنے کسی جاننے والے کو راضی کریں جو آپ کو اللہ کی رضا کے لیے قرض دے دے اور اُس سے آپ اُسی قدر  وقت مقرر کرنے کی کوشش کریں جتنے عرصے میں آپ کو اپنے اوپر اعتماد ہو کہ اس عرصے میں آپ اُس کا قرضہ واپس کردیں گے ، سودی قرضہ نہ لیں ؛ اس لیے   سودی  قرض لینے کے بعد اس قرض کی ادائیگی کا بھی تو انتظام کرنا ہوگا، اس وقت جیسے محنت کرکے حلال رقم سے ادائیگی کا انتظام کیا جائے گا، ابھی سے کوشش کرلی جائے؛ تاکہ سودی قرض لینے کی ہی نوبت نہ آئے، اور اگر بعد میں ادائیگی میں حلال کا اہتمام نہ ہو تو یہ گناہ در گناہ ہوجائے گا، کہیں اس سے زیادہ پریشانی نہ ہوجائے، اور سودی قرضہ اتارنے کے لیے  پھر سودی قرضے لینے کا سلسلہ   نہ کرنا   پڑجائے، اور آدمی  اگر حرام سے بچنے  کے لیے ہمت بلند رکھے اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھے تو اللہ کی طرف سے مدد ہوتی ہے، اور اللہ تعالی ایسی جگہ سے بندوبست کرتے ہیں جو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتی۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

{وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ إِنَّ اللَّهَ بَالِغُ أَمْرِهِ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا} [الطلاق: 2، 3]

حدیث مبارک میں ہے:

"عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: «لَعَنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آكِلَ الرِّبَا، وَمُؤْكِلَهُ، وَكَاتِبَهُ، وَشَاهِدَيْهِ» ، وَقَالَ: «هُمْ سَوَاءٌ»".

(الصحیح لمسلم، 3/1219، کتاب المساقات،دار احیاء التراث ، بیروت۔مشکاۃ المصابیح،  باب الربوا، ص: 243، قدیمی)

      مشكاة المصابيح  میں ہے:

"وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «الربا سبعون جزءًا أيسرها أن ینکح الرجل أمه».

(1/246، باب الربوا ، ط؛ قدیمی)

اعلاء السنن میں ہے:

"قال ابن المنذر: أجمعوا على أن المسلف إذا شرط على المستسلف زیادة أو ھدیة  فأسلف على ذلك إن أخذ الزیادة علی ذلك ربا".

(14/513، باب کل قرض جرّ منفعة، کتاب الحوالة، ط: إدارۃ القرآن)

"فتاوی شامی" میں ہے:

"وفي الأشباه: كل قرض جر نفعاًحرام، فكره للمرتهن سكنى المرهونة بإذن الراهن". 

 (5/166، مطلب کل قرض جر نفعا، ط: سعید)

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک ملاحظہ کیجیے:

قرض اور پریشانی سے نجات کے لیے نبی کریم ﷺ کی بتلائی ہوئی مسنون دعائیں

سودی قرض سے چھٹکارا اور قرض سے نجات کے لیے اعمال

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144210200937

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں