بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایپ سے موبائل ری سیل کرنے کا حکم


سوال

آج کل موبائل فون سے ری سیلنگ کا بڑا زور ہے ، یہ ری سیلنگ بڑی نفع بخش بھی ہے ، اس  کی صورت یہ  ہے کہ کمپنی کی ایک موبائل ایپ  ہوتی ہے ، اس پر کمپنی اپنے تمام پروڈکٹ کے فوٹوز ڈال دیتی ہے، اور  ساتھ ہی ان کی قیمت بھی ڈال دیتی ہے،اب جو  ری سیلر ہوتا ہے ، وہ اپنے واٹساپ ، فیس بک، ، اور انسٹاگرام وغیرہ پر وہ فوٹوز بھیجتا ہے،اگر کسی کو وہ پسند آجائے تو اس کا ایڈریس  لے کر ری سیلر اپنے  مارجن کے ساتھ ایپ سے بک کردیتاہے،اب کمپنی یہ سامان پیک کرکے اس ایڈریس پر بھیج دیتی ہے ، اور کمپنی کے ریٹ پر جو زائد مارجن ری سیلر نے ایڈ کیا تھا وہ دو یا تین روز میں ری سیلر کے بینک اکاؤنٹ میں آجاتاہے. تو سوال یہ کہ کیا اس طرح ری سیلنگ کرنا درست ہے؟ 

جواب

واضح ہو کہ خرید و فروخت کے نتیجے میں چوں کہ بائع (بیچنے والا) خریدار کو اپنی چیز کا مالک بنا رہا ہوتا ہے، لہذا شرعی طور پر بائع کا سودے کے وقت اس چیز کا مالک ہونا ضروری ہے، جس چیز کا کوئی شخص مالک ہی نہ ہو، وہ اسے آگے نہیں بیچ سکتا۔ اسی طرح کسی چیز کو بیچنے کے لیے اس کا قبضے میں ہونا بھی لازم ہے۔

صورتِ  مسئولہ میں ری سیلر جو موبائل کسٹمر کو اپنے سوشل میڈیا کے پیج کے ذریعہ بیچ رہا ہے، یہ اس کا مالک بھی نہیں ہے اور نہ ہی اس کے قبضے میں ہے؛  لہذا اس کا اس طرح موبائل بیچنا جائز نہیں ہے۔ تاہم اگر ری سیلر اس بات کی وضاحت کردے کہ وہ مذکورہ موبائل کمپنی سے  لے کر کسٹمر تک پہنچائے گا اور اپنے عمل کی فیس لے گا تو فیس اور اصل رقم، دونوں کی وضاحت کرکے اس کا اپنے کسٹمر سے معاملہ جائز ہوگا۔

مزید دیکھیے:

ڈراپ شپنگ کے کاروبار کا حکم

ڈراپ شپنگ میں قبضہ سے پہلے مال فروخت کرنا/ سپلائر کمپنی کی طے شدہ قیمت سے کم میں فروخت کرنا

سنن أبي داود (3 / 283):

 

عن حكيم بن حزام، قال: يا رسول الله، يأتيني الرجل فيريد مني البيع ليس عندي أفأبتاعه له من السوق؟ فقال: «لا تبع ما ليس عندك»

ترجمہ :حضرت  حکیم بن حزام فرماتے ہیں کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول (اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے پاس ایک شخص آتا ہے اور مجھ سے ایسی چیز کی بیع کرنا چاہتا ہے جو میرے پاس نہیں ہے ،میں اس کے  لیے وہ چیز بازار سے خرید کر  اسے دیتاہوں، (کیا یہ طریقہ درست ہے)؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : اسے ایسی چیز فروخت نہ کرو جو تمہارے پاس موجود نہیں ہے۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5 / 146):

"(و منها) أن يكون مملوكًا."

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5 / 146):

(ومنها) وهو شرط انعقاد البيع للبائع أن يكون مملوكا للبائع عند

البيع فإن لم يكن لا ينعقد، وإن ملكه بعد ذلك بوجه من الوجوه إلا السلم خاصة، وهذا بيع ما ليس عنده «، ونهى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - عن بيع ما ليس عند الإنسان، ورخص في السلم» ، ولو باع المغصوب فضمنه المالك قيمته نفذ بيعه؛ لأن سبب الملك قد تقدم فتبين أنه باع ملك نفسه، وههنا تأخر سبب الملك فيكون بائعا ما ليس عنده فدخل تحت النهي، والمراد منه بيع ما ليس عنده ملكا؛ لأن قصة الحديث تدل عليه فإنه روي أن «حكيم بن حزام كان يبيع الناس أشياء لا يملكها، ويأخذ الثمن منهم ثم يدخل السوق فيشتري، ويسلم إليهم فبلغ ذلك رسول الله - صلى الله عليه وسلم - فقال لا تبع ما ليس عندك» ، ولأن بيع ما ليس عنده بطريق الأصالة عن نفسه تمليك ما لا يملكه بطريق الأصالة، وأنه محال.

و هو الشرط فيما يبيعه بطريق الأصالة عن نفسه فأما ما يبيعه بطريق النيابة عن غيره ينظر إن كان البائع وكيلًا وكفيلًا فيكون المبيع مملوكًا للبائع ليس بشرط، و إن كان فضوليًّا فليس بشرط للانعقاد عندنا بل هو من شرائط النفاذ فإن بيع الفضولي عندنا منعقد موقوف على إجازة المالك، فإن أجاز نفذ، وإن رد بطل."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211201189

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں