بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ڈراپ شپنگ کے کاروبار کا حکم


سوال

 ایک آن لائن کاروبار ہے ۔ جس میں لوگ مثلًا زید آن لائن اسٹور تخلیق کرتاہے اور اسے مناسب طریقے سے سجاتا ہے، اور اس پرمختلف اشیاء بیچنے کے لیے پیش کرتا ہے جو حقیقت میں  اس کے پاس موجود نہیں ہوتیں،  بلکہ وہ دیگر آن لائن اسٹورز مثلًا بکر کے اسٹور پر ایسی مصنوعات تلاش کرتا ہے جو اچھی طرح سے فروخت کرسکتا ہے اور ان کی اشیاء کو اپنے آن لائن سٹور پر قیمت تھوڑی بڑھا کر پیش کر دیتا ہے۔ اور اس سامان کو فروخت کر کے منافع کماتاہے،  اور جب کوئی  شخص زید کو آرڈر دیتا ہے تو وہ اس سے معاملہ کرنے کے بعد خریدنے والے کے ایڈریس کو بکر کے آن لائن سٹور کو بھیج دیتاہے،  جہاں وہ چیز موجود ہوتی ہے؛ تاکہ آرڈر وہ پورا کریں ۔بکر کوادائیگی بھی زید کرتا ہے،  اور خریدار سے قیمت خود لیتا ہے ۔اس سارے عمل کے دوران مبیع زید کے پاس نہیں ہوتا، لیکن اہم بات یہ ہے کہ زید ایک آن لائن اسٹور بناتا ہے اور عمدہ کسٹمر سروس کے ساتھ اچھی ساکھ بناتا ہے جس کی وجہ سے لوگ بکر وغیرہ کی بجائے زید کو آرڈر دینا پسند کرتے ہیں اور تھوڑی سی اضافی رقم کے  ساتھ زید سے خریدنے کے  لیے تیار ہیں۔

(اس کاروبار میں زید خریدار کے ساتھ قیمت پہلے سے ہی طے کرتا ہے، ترسیل کی تاریخ کا فیصلہ کیا جاتا ہے اور مصنوعات کے  معیار کو بھی یقینی بنایا جاتا ہے  اور یہاں تک کہ گاہک کسی بھی وقت اشیاء واپس کرسکتے  ہیں، اگر وہ ان کی ضرورت پوری نہیں کرتیں یا انہیں پسند نہیں آتیں۔ یا ڈیلیوری کے دوران نقصان پہنچ جائے تو قیمت واپس کر دی جاتی ہے۔)بریکٹ میں ذکر کردہ تمام ذمہ داریاں زید کے سر ہوتی ہیں ۔ وہ جو منافع کماتا ہے وہ اپنی ان ذمہ داریوں اور اچھی ساکھ کی وجہ سے کماتا ہے ۔

نیز زید کے اسٹور پر فروخت کی جانے والی اشیاء کا مختصر تعارف بھی کرایا جاتا ہے جس میں یہ بات واضح طور پر لکھ دی جاتی ہے کہ اپنے پاس سامان نہ ہونے کی صورت میں وہ دوسروں سے خرید کر بھی دے سکتے ہیں۔اس کاروبار کو اصطلاح میں  "ڈراپ شپنگ"  کہا جاتا ہے، جس کی تمام تر تفصیلات انٹرنیٹ پر موجود ہیں اور آن لائن کاروبار میں مصروف 60 سے 70 فیصد افراد اس میں ملوث ہیں۔

اب اس ساری تفصیل کی روشنی میں سوال یہ ہے کہ کیا یہ کاروبار حلال ہے؟اگر نہیں تو شرائط اور طریقہ کار میں ایسی کیا تبدیلیاں کی جائیں کہ یہ کاروبار جواز کی حدود میں داخل ہو جائے؟ 

جواب

واضح رہے کہ ڈراپ شپنگ کے کام کا عام طور  پر طریقہ یہ ہے کہ بائع اپنی مصنوعات کی تصاویر اور تمام تفصیلات اپنی ویب سائٹ پر یا اپنے پیج پر ظاہر کردیتا ہے، ویب سائٹ یا پیج دیکھنے والا اشیاء  کو دیکھ کراپنی پسند کردہ شے (چیز) پر کلک کرکےاس چیز کو خریدنے کا اظہار کرتا ہے، رقم کی ادائیگی کے لیے مختلف طریقہ کار اختیار کیے جاتے ہیں، کبھی ادائیگی ڈیلیوری پر کی جاتی ہے یعنی جب مبیع مقرر ہ جگہ پر پہنچا دی جاتی ہے تو مشتری رقم ادا کرتا ہے اور بعض دفعہ  ادائیگی کریڈٹ کارڈ کے ذریعے کی جاتی ہے، بائع مشتری کا کریڈٹ کارڈ نمبر حاصل کرکے بینک کو بھیجتا ہے اور وہاں سے اپنی رقم وصول کرلیتا ہے،  مبیع کی ادائیگی بعض اوقات کسی کوریئر سروس کے ذریعے کی جاتی ہے اوربعض اوقات کمپنی خود یہ کام کرتی ہے۔ ضروری  نہیں کہ مبیع (فروخت کی جانے والی چیز) بائع کی ملکیت میں موجود ہو، بلکہ وہ  آرڈر ملنے پر اشیاء کا انتظام کرتا ہے اور مشتری کے پتے  پر یہ اشیاء ارسال کرتا ہے۔

اس طریقہ کار وبار میں  بظاہر خریدار کا اپنی مطلوبہ اشیاء پر کلک کردینا قبول معلوم ہوتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ خریدار کا عمل ایجاب ہے اور بائع  کا اپنی مصنوعات اپنی سائٹ پر ظاہر کردینا ایجاب کی پیشکش ہے، قبول نہیں،  جیسے دوکان داراشیاء اپنے اسٹال پر قرینے سے سجادیتا ہے اوران پر قیمت بھی چسپاں ہوتی ہیں، مگر وہ ایجاب نہیں ہوتا، بلکہ دعوتِ ایجاب ہوتی ہے، اسی طرح ویب سائٹ پر  بائع کااپنی اشیاء ظاہر کردینا بھی دعوتِ ایجاب ہے اورجیسے دکان پر دکان دار کاعمل قبول ہوتا ہے، اسی طرح انٹرنیٹ کے ذریعے خریداری میں بھی بائع کاعمل ایجاب کی قبولیت ہوتا ہے۔ ایک عام دکان پر اگر خریدار  اوردکان دار زبان سے کچھ نہ کہیں تو دونوں جانب سے ’’بیع  تعاطی‘‘  سے مکمل ہوجاتی ہے اوراگر خریدار زبان سے خریدار ی کی خواہش کا اظہارکرے اور دکان دار زبان سے کچھ نہ کہے، بلکہ چیز حوالے کردے یا ثمن قبول کرلے تو  بائع کی طرف سے فعلاً قبول ہوتا ہے، اسی طرح ویب سائٹ  پر بھی فعلی قبول ہوجاتا ہے۔

             بہرحال چیزوں کو پیش کرنا ایجاب نہیں، بلکہ ایجاب کی دعوت ہوتا ہے،  یہی وجہ ہے کہ دکان میں جب خریدارکو ئی چیز اٹھالیتا ہے تواس وقت بیع مکمل نہیں ہوتی، بلکہ کاؤنٹر پر آکر بھاؤ تاؤ ہوتا ہے، اگر چیزوں کو پیش کرنا ایجاب ہوتا تو خریدار کے اٹھا لینے اور کاؤنٹر پر پیش کرنے کے بعد اسے واپس لینے کا حق نہ ہوتا۔

        مختلف ویب سائیٹس پر جب گاہک اپنی پسندیدہ شے پر کلک کرتا ہے تو یہ تحریری ایجاب ہوتا ہے، جب یہ ایجاب کمپنی یا فرد کے پاس جاتا ہے تو وہ اسے قبول کرلیتا ہے یوں یہ عقد جانبین سے تحریری صورت میں عمل پذیر ہوتاہے۔

انٹرنیٹ پر اس طرح خریدوفروخت کرتے ہوئے درج ذیل امور کا خیال رکھنا ضروری ہے :

1۔ انٹرنیٹ پرسونا چاندی یا کرنسی کی خریدوفروخت  ہو تو بیعِ صرف کے احکام کی رعایت  لازم ہوگی۔

2۔ مبیع  (فروخت کردہ چیز) اور ثمن  (قیمت کے طور پر طے کردہ چیز) کی مکمل تفصیل بتائی جائے، جس سے ہر قسم کی جہالت  اور ابہام ختم ہوجائے۔

3۔ کوئی بھی شرط فاسد نہ لگائی گئی ہو۔

4۔ صرف تصویر دیکھنے سے خیارِ رویت  ساقط نہ ہوگا، لہذا اگر مبیع تصویر کے مطابق نہ ہو تو مشتری کو واپس کرنے کا اختیار ہوگا۔

5۔ ویب سائٹ پر جان دار کی تصویر نہ لگائی جائے۔

6۔ اگر ویب سائٹ والے آرڈر ملنے پر کسی اور جگہ سے چیز مہیا کرتے ہوں تو صارف کو اس وقت تک نہ بیچیں، جب تک چیز ان کے قبضے میں نہ آجائے، البتہ وہ وکیل بالشراء (خریداری کے وکیل)کے طورپر معاہدہ کرسکتے ہیں، یا خریداروں سے بیع  (سودے) کے بجائے بیچنے کا وعدہ کرسکتے ہیں۔

7۔ ویب سائٹ پر اشیاء بیچنے والے  کو چاہیے کہ  ادائیگی کے لیے کریڈٹ کارڈ کا آپشن  دینے کے بجائے صرف ڈیبٹ کارڈ  یا    ڈیلیوری پر ادائیگی کا آپشن  دے؛ کیوں کہ  کریڈٹ کارڈ کا استعمال جائز نہیں، اگر چہ وقتِ مقررہ کے اندر ادائیگی کردی جائے اورسود دینے کی نوبت نہ آئے۔

            اگر ویب سائٹ پرخریدی گئی چیز اس طرح نہیں جیسا کہ اس کی صفات میں بیان کیا گیا تھا تو مشتری کو خیارِ رؤیت (یعنی چیز کو دیکھ کر معیار کے مطابق نہ ہونے یا پسند نہ آنے کی صورت میں واپس کرنے کا اختیار)  حاصل ہوگا، نیز اگر اس شے میں کوئی ایسا  عیب ہو جس کا مشتری کو علم نہیں تھا تو پھر مشتری کو خیارِ عیب  (عیب کی وجہ سے لوٹانے کا اختیار) حاصل ہوگا، اگر وہ چاہے تو پوری قیمت پر اسے لے لے، اگر چاہے تو واپس کردے ، لیکن اسے یہ حق نہیں کہ وہ مبیع رکھ کر نقصان کی قیمت لے۔ بائع کو خیارِ رؤیت تو مطلقاً حاصل نہیں ہوگا، البتہ ثمن میں کھوٹ ہوتو اسے تبدیلی کاحق ہوگا، مگر سودے  کو منسوخ کرنے کاحق اسے پھر بھی نہ ہوگا۔

مزید دیکھیے:

ڈراپ شپنگ میں قبضہ سے پہلے مال فروخت کرنا/ سپلائر کمپنی کی طے شدہ قیمت سے کم میں فروخت کرنا

الفتاوى الهندية - (20 / 203):

"شراء ما لم يره جائز، كذا في الحاوي. وصورة المسألة أن يقول الرجل لغيره: بعت منك هذا الثوب الذي في كمي هذا، وصفته كذا، والدرة التي في كفي هذه، وصفتها كذا أو لم يذكر الصفة، أو يقول: بعت منك هذه الجارية المنتقب ... وإن أجازه قبل الرؤية لم يجز وخياره باق على حاله، فإذا رآه إن شاء أخذ وإن شاء رده، هكذا في المضمرات".

الفتاوى الهندية - (20 / 288):

"خيار العيب يثبت من غير شرط، كذا في السراج الوهاج. وإذا اشترى شيئًا لم يعلم بالعيب وقت الشراء ولا علمه قبله والعيب يسير أو فاحش فله الخيار إن شاء رضي بجميع الثمن وإن شاء رده، كذا في شرح الطحاوي. وهذا إذا لم يتمكن من إزالته بلا مشقة، فإن تمكن فلا كإحرام الجارية".

نیز   درج ذیل لنک پر جامعہ کا ایک اور فتویٰ بھی ملاحظہ کیا جاسکتا ہے :

آن لائن شاپنگ کا حکم

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008200184

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں