ڈراپ شپنگ کے حوالہ سے سوال ہے کہ امریکا کی گورنمنٹ کی جو عام تجارت کے حوالہ سے ضروریات ہیں وہ ہم پوری کرتے ہیں، اور سیلر سرٹیکفکیٹ بھی حاصل کرتے ہیں، اب ہم جن سپلائر کو رجسٹر کرانا چاہتے ہیں، یہ ڈاکومنٹس ان کے لیے بھی ضروری ہیں، جب سپلائر ہمیں رجسٹر کرلیتا ہے تو وہ ہمیں اپنی پراڈکٹس کی معلومات ایکسل شیٹ کے ذریعہ بھیج دیتا ہے، اور ہم یہ پراڈکٹ اپنی ویب سائٹ پر ڈسپلے کرواتے ہیں، اور ایکسل شیٹ کے ذریعے U.S كمپني سے جو معلومات مہیا ہوتی ہیں ، وہی ہم اپني ویب سائٹ پر دکھاتے ہیں، اس معلومات میں ہماری جانب سے کوئی اضافہ نہیں ہوتا، اب مسئلہ یہ ہے کہ :
ہم اپنی ویب سائٹ کے ذریعہ جن چیزوں کو فروخت کرتے ہیں ان میں سے اکثر چیزیں ہمارے قبضہ میں نہیں ہوتیں، اور جب کسٹمر ہمیں آرڈ ر کرتا ہے تو ہم سپلائر کو یہ آرڈر بھیجتے دیتے ہیں کہ وہ U.Sکمپنی ہماری جانب سے ہمارے کسٹمر کو یہ آرڈر شپ (بھیج) کردے، اب ہم جو بغیر قبضہ کے یہ اشیاء فروخت کرر ہے ہیں ، کیا ایسا کرنادرست ہے؟ اگر نہیں تو اس کا متبادل حل بھی بتادیں،ہم چوں کہ ری سیلر ہیں اور یہ بات ہم نے اپنی ویب سائٹ پر بھی لکھی ہوئی ہے۔
2: مذکورہ مسئلہ میں ہم امریکا کی کمپنی سے کریڈٹ کارڈ یا ڈیبٹ کارڈ کے ذریعہ مال خریدتے ہیں، لیکن یہ مال ہمارے قبضہ میں نہیں ہوتا، بلکہ اسی کمپنی میں رکھا ہوا ہوتا ہے، اور وہ ہمارے کسٹمر کے آرڈر پر ہماری جانب سے ان کو بھیج دیتی ہے، اب معلوم یہ کرنا ہے کہ ان اشیاء کو فروخت کرنے کے دو طریقہ ہیں :
(1) میپ پالیسی (Map Policy) ۔(2) آزاد طریقہ ۔
معلوم یہ کرنا ہے کہ میپ پالیسی کے اندر کومپیرڈیٹر کے مقابلے میں کبھی ہم کمپنی کے اصول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کمپنی کے متعین کردہ قیمت سے کم میں فروخت کرتے ہیں، جب کہ کمپنی کی اشیاء ہمارے قبضے میں نہیں ہوتیں، کیا ہم میپ پالیسی کے خلاف کم قیمت پر اشیاء فروخت کرسکتے ہیں؟ اور آزاد والی صورت میں بھی قبضہ نہیں ہوتا، لیکن اس میں ہم اپنی مرضی کی قیمت سے اشیاء فروخت کرتے ہیں، کیا یہ طریقہ جائز اور درست ہے؟
واضح رہے کہ کسی بھی منقولی چیز کو خریدنے کے بعد اس پر فزیکلی قبضہ کرنے سے پہلے آگے فروخت کرنا جائز نہیں ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل اپنے سپلائر U.S كمپني کی چیزوں کے اشتہار، تصاویر اور اس کی تفصیل اپنی ویب سائٹ پر لگاتا ہے، اور ان چیزوں کو سائل نے نہ خریدا ہوا ہوتا ہے اور نہ ہی وہ اس کے قبضہ میں ہوتی ہیں، بلکہ وہ محض اشتہار ،تصویردکھلاکر کسٹمر کو وہ سامان فروخت کرتا ہے تو اگر ایسی صورت میں سائل اپنے کسٹمر سے باقاعدہ خرید و فروخت کا معاملہ کرلیتا ہو اور کسٹمر سے سودا کرنے کے بعد وہ چیز سپلائر کمپنی سے خرید کردیتا ہو یا کسٹمر سے سودا کرنے سے پہلے، سپلائر کمپنی سے وہ چیز تو خرید لیتا ہو، لیکن اس پر خود یا اپنے وکیل کے ذریعے قبضہ نہیں کرتا ہو تو یہ دونوں صورتیں جائز نہیں ہیں ؛ اس لیے کہ جو چیز فروخت کرنا مقصود ہو،اس کا فروخت کرنے والے کی ملکیت اور قبضہ میں ہونا شرعاً ضروری ہے، اور براہ راست سپلائر کمپنی کا کسٹمر کو مال پہنچادینا قبضہ كے ليے کافی نہیں ہے۔
نیز سوال میں ذکر کردہ تفصیل کے مطابق خواہ میپ پالیسی کے تحت یہ معاملہ ہو یا آزاد پالیسی کے تحت ، بہر صورت فروخت کی جانے والی چیز کو ، فروخت کرنے والے کی ملکیت اور قبضہ میں نہ ہونے کی وجہ سے آگے بیچنا جائز نہیں ہوگا۔
اس کے جواز کی صورتیں درج ذیل ہیں:
1: سائل، کسٹمر سے باقاعدہ خرید و فروخت کا معاملہ کرنے کے بجائے اس سے فروخت کرنے کا وعدہ کرلے یعنی مثلاً کسٹمر سے یہ کہہ دے یا اپنی ویب سائٹ پر یہ لکھ کر لگادے کہ یہ چیز اتنی قیمت میں آپ کو ملے گی اور اس وعدہ کے عوض پیشگی رقم لینا چاہے تو اس کی بھی اجازت ہے، اور اس کے بعد سپلائر کمپنی سے مال خریدنے کے بعد اپنے قبضہ میں لے کر کسٹمر کو فروخت کردے، اور قبضہ کے لیے یہ صورت بھی اختیار کی جاسکتی ہے سائل وہیں امریکا میں سپلائر کمپنی کے علاوہ کسی تیسرے شخص کو اپنا وکیل متعین کردے اور وہ سائل کی طرف سے سپلائر کمپنی سے سامان لے لے، اور اس کے بعد کسٹمر تک پہنچادے یا کمپنی کو کہہ دے کہ یہ مال فلاں آدمی کو بھیج دیں۔
2:سائل، سپلائر كمپني کا کمیشن ایجنٹ بن جائے ، اور فی پراڈکٹ اپنی کمیشن رقم یا فیصد میں متعین کرلے تو اس صورت میں ویب سائٹ پر ان کی اشیاء لگاکر باقاعدہ کسٹمر کو فروخت کرنا اور سپلائر کمپنی سے طے شدہ کمیشن لینا بھی جائز ہوگا، اور آرڈر کے بعد سپلائر کمپنی کا براہ راست کسٹمر کو سامان پہنچادینا بھی کافی ہوگا۔
مزید دیکھیے:
فتاوی شامی میں ہے:
’’إذ من شرط المعقود عليه: أن يكون موجوداً مالاً متقوماً مملوكاً في نفسه، وأن يكون ملك البائع فيما يبيعه لنفسه، وأن يكون مقدور التسليم منح‘‘.
(5/ 58، کتاب البیوع، باب بیع الفاسد، ط: سعید)
تبیین الحقائق میں ہے :
"قال رحمه الله: (لا بيع المنقول) أي لا يجوز بيع المنقول قبل القبض لما روينا ولقوله عليه الصلاة والسلام "إذا ابتعت طعاما فلا تبعه حتى تستوفيه"۔ رواه مسلم وأحمد ولأن فيه غرر انفساخ العقد على اعتبار الهلاك قبل القبض؛ لأنه إذا هلك المبيع قبل القبض ينفسخ العقد فيتبين أنه باع ما لا يملك والغرر حرام لما روينا".
(4/ 80، کتاب البیوع، ط: المطبعة الكبرى الأميرية، بولاق، القاهرة)
فتاوی شامی میں ہے:
"ولو أعطاه الدراهم، وجعل يأخذ منه كل يوم خمسة أمنان ولم يقل في الابتداء اشتريت منك يجوز وهذا حلال وإن كان نيته وقت الدفع الشراء؛ لأنه بمجرد النية لا ينعقد البيع، وإنما ينعقد البيع الآن بالتعاطي والآن المبيع معلوم فينعقد البيع صحيحا. قلت: ووجهه أن ثمن الخبز معلوم فإذا انعقد بيعا بالتعاطي وقت الأخذ مع دفع الثمن قبله، فكذا إذا تأخر دفع الثمن بالأولى".
(4/ 516، کتاب البیوع، مطلب البیع بالتعاطی، ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144303100771
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن