بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

اِصلاحِ نفس کے لیے ایک شیخ کو چھوڑ کر دوسرے شیخ سے بیعت کرنا


سوال

زید نے  ایک شیخ سے بيعت كي، اب  وہ شیخ مصروف شخص  ہیں، اور بھی پیچیدگیاں ہیں، ان کے پاس وقت نہیں ہے،  کیا زید کسی اوربزرگ سے اپنی اصلاحِ  نفس کے لیے رجوع اور بيعت کرسکتا ہے؟

جواب

راہِ سلوک کی تمام جد وجہد، مجاہدات وریاضات کا اصل مقصود صفتِ احسان کا حصول، باطنی رذائل کا تزکیہ اور حق جل مجدہٗ کے ساتھ ربط وتعلق میں روز افزوں اضافہ اور ترقی ہے۔ بیعت اس سلسلے کا ایک اہم ذریعہ ہے، جس کی اجمالی حقیقت یہ ہے کہ بیعت‘ شیخ اور مرید کے درمیان تین اجزاء پر مشتمل ایک عہد  ہے:

۱:…مرید کا اپنے گزشتہ تمام گناہوں سے توبہ کرنا۔
۲:…شیخ کی اتباع کا عہد کرنا۔
۳:…شیخ کا مرید کی تربیت کا وعدہ کرنا۔

اس میں مرید کی حیثیت مریض کی اور شیخ کا مقام طبیب ومعالج کا ہوتا ہے،  اگر مرید کسی شیخ کے ہاں فائدہ محسوس نہ کرے  تو کسی دوسرے متبعِ سنت شیخ کے ہاتھ پر بیعت کرلے اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، البتہ اگر پہلے شیخ سے فائدہ حاصل ہوتا ہوتو بلاوجہ بیعت نہیں توڑنی چاہیے، اس سے بے برکتی پیدا ہوجاتی ہے ۔ اگر پہلے شیخ سے بد اعتقاد ہوجائے اور شیخ متبعِ سنت ہو تو محروم بھی ہوسکتاہے۔

العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية (7 / 436):

"وَفِيهِ مَسْأَلَةُ رَجُلٍ مِنْ الصُّوفِيَّةِ، أَخَذَ الْعَهْدَ عَلَى رَجُلٍ، ثُمَّ اخْتَارَ الرَّجُلُ شَيْخًا آخَرَ وَأَخَذَ عَلَيْهِ الْعَهْدَ، فَهَلْ الْعَهْدُ الْأَوَّلُ لَازِمٌ أَمْ الثَّانِي؟ الْجَوَابُ: لَايَلْزَمُهُ الْعَهْدُ الْأَوَّلُ وَلَا الثَّانِي وَلَا أَصْلَ لِذَلِكَ".

حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ رقم طراز ہیں:

’’اگر کوئی شخص ایک شیخ کی خدمت میں خوش اعتقادی کے ساتھ ایک معتد بہ مدت تک رہے، مگر اس کی صحبت میں کچھ تاثیر نہ پائے تو اسے چاہیے کہ دوسری جگہ اپنا مقصود تلاش کرے، کیوں کہ مقصود خدا تعالی ہے نہ کہ شیخ، لیکن شیخِ اول سے بد اعتقاد نہ ہو، ممکن ہے کہ وہ کامل مکمل ہو، مگر اس کا حصہ وہاں نہ تھا، اسی طرح شیخ کا انتقال قبل حصول مقصود کے ہوجائے یا ملاقات کی امید نہ ہو جب بھی دوسری جگہ تلاش کرے اور یہ خیال نہ کر ے کہ قبر سے فیض لینا کافی ہے، دوسرے شیخ کی کیا ضرورت ہے، کیوں کہ قبر سے فیضِ تعلیم نہیں ہوسکتا، البتہ صاحبِ نسبت کو احوال کی ترقی ہوتی ہے، سو یہ شخص ابھی محتاجِ تعلیم ہے، ورنہ کسی کو بھی بیعت کی ضرورت نہ ہوتی، لاکھوں قبریں کاملین بلکہ انبیاء کی موجود ہیں اور بلا ضرورت محض ہوسنا کی سے کئی کئی جگہ بیعت کرنا بہت برا ہے، اس سے بیعت کی برکت جاتی رہتی ہے، اور شیخ کا قلب مکدر ہو جاتا ہے، اور نسبت قطع ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے اور ہرجائی مشہور ہوجاتا ہے‘‘۔

(شریعت و طریقت ص ۴۹۰)

القول الجمیل میں ہے :

" فاعلم أن تکرار البیعة من رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم مأثور، وکذلک عن الصوفیة، أما من الشیخین فإن کان بظهور خلل فیمن بایعه فلابأس، وکذٰلك بعد موته أو غیبته المنقطعة واما بلاعذر فانه يشبه المتلاعب ويذهب البركة ويصرف الشيوخ عن تعهده."

 (القول الجمیل للشاہ ولي اللہ، المطبوع مع شرحه شفاء العلیل،  ص:۱۹-۲۰) 

مزید دیکھیے:

کیا ایک سے زائد مرشد سے بیعت کی جا سکتی ہے؟

بیعت کی حقیقت، اہمیت اور ضرورت

بیعت کا حکم اور مرشد وشیخ کی صفات

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144207200896

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں