بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

بیعت کا حکم اور مرشد وشیخ کی صفات


سوال

کیا ہر مسلمان کو کسی مرشد کے ہاتھ پر بیعت کرنا ضر و ری ہے؟  کیا یہ دین کا حصہ ہے؟  اور اگر ہاں تو پھر مرشد کے اندر کون کون سی باتیں ہونا لازم ہے؟

جواب

ہر انسان پر اپنے نفس کی اصلاح واجب ہے، اس کے لیے جس طرح اور ذرائع ہیں اسی طرح کسی سے بیعت ہوجانا بھی ایک مؤثر اور کامیاب ذریعہ ہے، ہر ایک کے لیے یہ ضروری تو نہیں ہے، لیکن انسان اگر خود رائی کو  وطیرہ بنالے تو  ذاتی و اجتماعی، دینی و دنیاوی معاملات میں اس سے غلطی کا احتمال زیادہ رہتاہے، جب کہ کسی متبعِ شریعت بزرگ کو اپنا بڑا بناکر اس کی راہ نمائی اور مشورے سے امور انجام دینے میں غلطی اور نقصان کا امکان بہت کم ہوجاتاہے، لہٰذا اگر کسی کو ایسے دین دار اساتذہ اور والدین میسر ہیں جو اس کی ہر موڑ پر راہ نمائی کرتے ہوں، وہ ان کا فرماں بردار ہو اور ان سے گہرا ربط رکھتاہو تو اسے باقاعدہ بیعت ہونے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن یہ بات شاذ ونادر کسی کو میسر ہوتی ہے، لہذا بہتر  یہ ہے کہ کسی متبعِ سنت و شریعت بزرگ سے باقاعدہ اصلاحی تعلق قائم کرلیاجائے، اور اگر کوئی سمجھتا ہے کہ اس کی اصلاح صرف کسی سے بیعت ہوکر یعنی کسی کی مریدی اختیار کرلینے سے ہوسکتی ہے تو اس کے لیے کسی متبعِ سنت پیر سے بیعت ہونا ضروری ہے اور اگر وہ سمجھتا ہے کہ کسی سے بیعت ہوئے بغیر  کسی معتبر شرعی ذریعہ سے اس کی اصلاح ہوسکتی ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ اس ذریعہ کو اختیار کرے۔

اس لیے نہ تو بیعت (پیری مریدی) کو مطلقاً لازم اور ضروری کہا جاسکتا ہے اور نہ بالکلیہ اس کی اہمیت و افادیت کا انکار کیا جاسکتا ہے،  ہر شخص کے احوال کے اعتبار سے اس کا حکم مختلف ہوگا۔

چوں کہ  بیعت کا مقصد رشد و ہدایت اور اصلاح نفس ہے، اس لیے شیخ میں مندرجہ ذیل صفات کا ہونا ضروری ہے:

  1. کتاب و سنت کا ضروری علم رکھتا ہو خواہ  پڑھ کر یا علماء سے سن کر۔

  2. عدالت و تقوی میں پختہ ہو، کبائر سے اجتناب کرتا ہو، صغائر پر مصر نہ ہو۔

  3.  دنیا سے بے رغبت ہو (حبِ مال و حبِ جاہ سے خالی ہو)، آخرت میں رغبت رکھتاہو، طاعاتِ مؤکدہ و اذکار منقولہ کا پابند ہو۔

  4.  نیکیوں کا حکم کرتا ہو، برائیوں سے روکتا ہو۔

  5.  سلوک، تزکیۂ باطن کو معتبر مشائخ سے حاصل کیا ہو، اور ان کی صحبت میں طویل عرصہ رہا ہو۔

تلازم الشریعة  والطریقة میں ہے؛

"فشرط من ياخذ البيعة أمور، أحدها: علم الكتاب والسنة... والشرط الثاني: العدالة والتقوى، فيجب أن يكون مجتنبًا عن الكبائر غير مصر علي الصغائر... والشرط الثالث: أن يكون زاهدًا في الدنيا راغبًا في الاخرة، مواظبًا على الطاعات المؤكدة والأذكار المأثورة... والشرط الرابع: أن يكون آمرًا بالمعروف ناهيًا عن المنكر... والشرط الخامس: أن يكون صحب المشائخ وتأدب بهم دهرًا طويلًا وأخذ منهم النور الباطن والسكينة".(ص؛130، از  شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندہلوی رحمہ اللہ، ط:مکتبہ حرمین، دبئی)

لہذا اگر کسی شیخ میں مندرجہ بالا شرائط موجود ہوں تو ان سے بیعت کی جاسکتی ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106201174

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں