کسی پیر سے بیعت لینا کیسا ہے؟ تفصیل سے بیان کردیں!
بیعت ہونا فرض نہیں ہے، البتہ دین کے راستہ پر چلنا اور نفس کا تزکیہ اور اصلاح کرانا فرض ہے۔ اور کسی متبع سنت و شریعت پیر سے بیعت ہونا اسی اصلاح کا ایک ذریعہ ہے۔ اصلاحِ نفس اور بیعت کی حقیقت، اہمیت اور ضرورت کے حوالے سے ہمارے اکابرین کے اقوال ذیل میں نقل کیے جاتے ہیں، جنہیں پڑھ کر کوئی بھی سلیم الفطرت مرد یا عورت ان دونوں سے غافل نہیں رہ سکتا، اگرچہ اصلاح ہونا صرف بیعت ہوجانے پر ہی موقوف نہیں ہے، بیعت ہوئے بغیر بھی کسی متبع سنت و شریعت عالم اور اللہ والے سے اپنے نفس کی اصلاح کے معاملے میں راہ نمائی حاصل کی جاسکتی ہے۔
حکیم الامت مجدد الملت حضرت مولانا شاہ اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"میں فتویٰ تو یہی دیتا ہوں کہ بیعت ہونا فرض نہیں ہے، بیعت سنتِ مؤکدہ بھی نہیں ہے، اصلاح فرض ہے، لیکن بیعت برکت کی چیز ہے۔"
(راہ سلوک کے آداب اور حقوق شیخ، ص:30، ط : ادارہ تالیفات اختریہ)
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ تزکیہ نفس کو فرضِ عین فرمایا کرتے تھے اور فرماتے تھے:
"تزکیہ فعلِ متعدی ہے، جس سے معلوم ہوا کہ یہ ایسا فعل نہیں جو صرف اپنے فاعل پر تمام ہو جیسا کہ فعلِ لازم کا خاصہ ہے، بلکہ ایک مُزَكِّي اور مُرَبِّي کی ضرورت ہے جو تزکیہ اور تربیت کرے، پس اپنی اصلاح کوئی انسان خود نہیں کرسکتا، کسی مُصلِح کی اشد ضرورت ہے اور چوں کہ فرض کا مقدمہ فرض ہوتا ہے، اس لیے مُصلِح تلاش کرنا اور اس کی صحبت حاصل کرنا بھی فرض ہوا۔"
(اصلاحِ اخلاق، ص:6، ط: خانقاہ امدادیہ اشرفیہ)
حضرت مولانا ظفر احمد عثمانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"تمام علماء و فقہاء کا اس پر اتفاق رہا ہے کہ رذائل سے بچنا اور فضائل کو حاصل کرنا ہر عاقل، بالغ پر فرض ہے، یہی فریضہ ہے جس کو اصلاحِ نفس یا تزکیہ نفس اور تزکیہ اخلاق یا تہذیبِ اخلاق کہا جاتا ہے، اور یہی تصوف کا حاصل و مقصود ہے۔
جس طرح ہر مرد و عورت پر اپنے اپنے حالات و مشاغل کی حد تک اُن کے فقہی مسائل جاننا فرض ہے اور پورے فقہ کے مسائل میں بصیرت و مہارت پیدا کرنا اور مفتی بننا سب پر فرض نہیں بلکہ فرضِ کفایہ ہے، اسی طرح جو اَخلاقِ حمیدہ کسی میں موجود نہیں، انہیں حاصل کرنا اور جو رَذائل اس کے نفس میں چُھپے ہوئے ہیں اُن سے بچنا، تصوف کے جتنے علم پر موقوف ہے، اس علم کا حاصل کرنا فرضِ عین ہے اور پورے علمِ تصوف میں بصیرت و مہارت پیدا کرنا کہ دوسروں کی تربیت بھی کرسکے، یہ فرضِ کفایہ ہے۔
جس طرح قرآن و سنت سے فقہی مسائل و احکام نکالنا اور حسبِ حال شرعی حکم معلوم کرنا ہر ایک کے بس کا کام نہیں، بلکہ راہ نمائی کے لیے استاذ یا فقیہ اور مفتی کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے، اسی طرح باطنی اخلاق کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھالنا ایک نازک اور قدرے مشکل کام ہے، جس میں بسا اوقات مجاہَدوں، ریاضتوں اور طرح طرح کے نفسیاتی علاجوں کی ضرورت پیش آتی ہے، اور کسی ماہر کی رہنمائی کے بغیر چارہ کار نہیں ہوتا، اس نفسیاتی علاج اور رہنمائی کا فریضہ شیخ و مرشد انجام دیتا ہے۔ اسی لیے ہر عاقل و بالغ مرد و عورت کو اپنے تزکیہ اخلاق کے لیے ایسے شیخ و مرشد کا انتخاب کرنا پڑتا ہے جو قرآن و سنت کا متبع ہو، اور باطنی اخلاق کی تربیت کسی مستند شیخ کی صحبت میں رہ کر حاصل کرچکا ہو۔
بیعت سنت ہے، فرض و واجب نہیں: بیعت کی حقیقت یہ ہے کہ وہ مرشد اور اس کے شاگرد (مرید) کے درمیان ایک معاہدہ ہوتا ہے، مرشد یہ وعدہ کرتا ہے کہ وہ اس کو اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق زندگی گزارنا سکھائے گا، اور مرید وعدہ کرتا ہے کہ مرشد جو بتلائے گا اس پر عمل ضرور کرے گا، یہ بیعت فرض و واجب تو نہیں، اس کے بغیر بھی مرشد کی رہنمائی میں اصلاحِ نفس کا مقصد حاصل ہوسکتا ہے، لیکن بیعت چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سنت ہے اور معاہدہ کی وجہ سے فریقین کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس بھی قوی رہتا ہے، اس لیے بیعت سے اس مقصد کے حصول میں بہت برکت اور آسانی ہوجاتی ہے۔"
(امداد الاحکام، ج:1، ص:39، 47، 48، ط : مکتبہ دارالعلوم کراچی)
کسی متبع سنت و شریعت پیر سے بیعت ہونے اور ان کا مرید بننے میں کئی فائدے بھی ہیں، بہشتی زیور حصہ نمبر 7 میں حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ مرید بننے میں کئی فائدے ہیں:
1- ایک فائدہ یہ کہ دل کے سنوارنے کے طریقے جو (بہشتی زیور حصہ سات میں) بیان کیے گئے ہیں ان کے برتاؤ کرنے میں کم سمجھی سے غلطی ہوجاتی ہے، پیر اس کا ٹھیک راستہ بتلا دیتا ہے۔
2- دوسرا فائدہ یہ ہے کہ کتاب میں پڑھنے سے بعض دفعہ اتنا اثر نہیں ہوتا جتنا کہ پیر کے بتلانے سے ہوتا ہے، ایک تو اس کی برکت ہوتی ہے، پھر یہ بھی خوف ہوتا ہے کہ اگر کوئی نیک کام میں کمی کی یا کوئی بری بات کی، پیر سے شرمندگی ہوگی۔
3- تیسرا فائدہ یہ کہ پیر سے اعتقاد اور محبت ہوجاتی ہے اور یوں جی چاہتا ہے کہ جو اس کا طریقہ ہے ہم بھی اس کے موافق چلیں۔
4- چوتھا فائدہ یہ ہے کہ پیر اگر نصیحت کرنے میں سختی یا غصہ کرتا ہے تو ناگوار نہیں ہوتا، پھر اس نصیحت پر عمل کرنے کی زیادہ کوشش ہوجاتی ہے۔
اور بھی بعض فائدے ہیں، جن پر اللہ تعالیٰ کا فضل ہوتا ہے ان کو حاصل ہوتے ہیں اور حاصل ہونے ہی سے وہ معلوم ہوتے ہیں۔ البتہ بیعت کرنا بھی ہر کسی کا کام نہیں ہے، اس کے لیے بھی بعض صفات کا حامل ہونا ضروری ہے، اگر مرید ہونے کا ارادہ ہو تو اول پیر میں یہ باتیں دیکھ لی جائیں، جس میں یہ باتیں نہ ہوں اس سے مرید نہ ہو:
(ماخوذ از:بہشتی زیور حصہ ہفتم، ص:377، 378، ط : دارالاشاعت)
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
"کامل شیخ کی پہچان یہ ہے کہ شریعت کا پورا متبع ہو، بدعت اور شرک سے محفوظ ہو، کوئی جہل کی بات نہ کرتا ہو، اس کی صحبت میں بیٹھنے کا یہ اثر ہو کہ دنیا کی محبت گھٹتی جائے اور حق تعالیٰ کی محبت بڑھتی جائے، اور جو مرض باطنی بیان کرو اس کو بہت توجہ سے سن کر اس کا علاج تجویز کرے اور جو علاج تجویز کرے اس علاج سے دم بدم نفع ہوتا چلا جائے، اور اس کے اتباع کی بدولت روز بروز حالت درست ہوتی چلی جائے۔ یہ علامت ہے شیخِ کامل کی، ایسا شخص اگر مل جائے تو وہ اکسیرِ اعظم ہے۔"
(اشرف السوانح، ج:2، ص:248، ط : ادارہ تالیفات اشرفیہ)
حضرت مولانا شاہ رفیع الدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ جو حضرت مولانا شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے صاحب زادے ہیں، اپنے رسالہ بیعت میں تحریر فرماتے ہیں:
" اے سالکینِ طریق! سن لو، بیعت کا مقصد یہ ہے کہ انسان غفلت اور معصیت سے نکل کر تقویٰ اور طاعت کی زندگی بسر کرنے لگے۔"
(راہ سلوک کے آداب اور حقوق شیخ، ص:28، ط : ادارہ تالیفات اختریہ)
عالم ربانی حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:
"بیعت سنت ہے، واجب نہیں، اس واسطے کہ اصحاب رضی اللہ عنہم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے بیعت کی اور اُس کے سبب سے حق تعالیٰ کی نزدیکی چاہی اور کسی دلیلِ شرعی نے تارکِ بیعت کے گنہگار ہونے پر دلالت نہ کی اور ائمہ دین نے تارکِ بیعت پر انکار نہ کیا، تو یہ عدمِ انکار گویا اجماع ہوگیا اس پر کہ وہ واجب نہیں۔
سنتُ اللہ یوں جاری ہے کہ امور خفیہ جو نفوس میں پوشیدہ ہیں اُن کا ضبط افعال اور اقوال ظاہری سے ہو اور اقوال قائم مقام ہوں امورِ قلبیہ کے، چنانچہ تصدیق اللہ اور اُس کے رسول اور قیامت کی امر مخفی ہے، تو اقرار ایمان کا بجائے تصدیقِ قلبی کے قائم مقام کیا گیا۔ اور چنانچہ رضامندی بائع اور مشتری کی قیمت اور مبیع کے دینے میں امر مخفی پوشیدہ ہے تو ایجاب اور قبول کو قائم مقام رضائے مخفی کے کردیا۔ سو اسی طرح توبہ اور عزم کرنا ترک معاصی کا اور تقویٰ کی رسی کو مضبوط پکڑنا امر مخفی اور پوشیدہ ہے، تو بیعت کو اُس کے قائم مقام کردیا۔"
(شفاء العلیل ترجمہ القول الجمیل، ص:18، 19، ط : ایچ ایم سعید)
حکیم الامت مجدد الملت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ "رسالہ سد الہیعۃ فی حد البیعۃ" میں ارشاد فرماتے ہیں:
"بیعت کی ایک حقیقت ہے، ایک صورت۔ حقیقت اس کی ایک عقد ہے درمیان مرشد و مسترشد، مرشد کی طرف سے تعلیم کا اور مسترشد کی طرف سے اتباع کا۔ پھر اگر مرشد اور مسترشد کے درمیان نبی اور امتی کا تعلق ہے تو نبی کی طرف سے تبلیغ اور امتی کی طرف سے ایمان، جس میں سب احکام کا التزام اس حقیقت کے تحقق کے لیے کافی ہے، اور یہی محمل ہے اس قول کا اگر ثابت ہو "من لاشيخ له فشيخه الشيطان"، مگر کوئی مسلمان اس کا مصداق نہیں، اور یہ بیعت فرض ہے، اور اس کے بعد بھی اگر کسی خاص حکم یا احکام کا عہد لیا جاوے وہ اس عہد مذکور کی تجدید ہے۔ كما في حديث عبادة بن الصامت رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم وحوله عصابة من أصحابه: بايعوني۔۔۔ إلى قوله: فبايعناه على ذلك. متفق عليه (مشكاة، كتاب الايمان)۔ اور اگر مرشد و مسترشد دونوں امتی ہیں جیسا بعد عہد نبوت کے اور یہی وہ بیعت ہے جس کا لقب اس وقت پیری مریدی ہے تو وہ بھی مثل صورت ثانیہ کے تقویت ہے عہد اسلامی کی، اور یہ اتباع ہے اس سنت کا جس کو اوپر تجدیدِ عہد کہا گیا ہے، اور چونکہ اس کے فرض یا واجب یا سنت مؤکدہ ہونے کی کوئی دلیل نہیں، اور حضرت نبویہ سے دین کی حیثیت سے منقول۔ لہٰذا یہ بیعت مستحب ہوگی، اور جس نے اس کے فرض یا واجب ہونے پر آیت ياأيها الذين آمنوا اتقوا اللّٰه وابتغوا إليه الوسيلةسے استدلال کیا ہے، محض بے دلیل اور تفسیر بالرائے ہے، صحیح تفسیر وابتغوا إليه القرب بالطاعاتہے، توسل لغت میں تقرب ہے، ومن ثم فسره البيضاوي بقوله: وسل إلى كذا إذا تقرب إليه من فعل الطاعات وترك المعاصي، اه۔ اسی طرح جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے اس پر مداومت ثابت نہیں، ہزاروں مومن اس خاص طریقہ پر اس زمانہ میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے بیعت نہیں ہوئے، اس لیے اس کو سنت مؤکدہ بھی نہ کہیں گے۔ یہ سب تفصیل اس کی حقیقت میں ہے۔
اور ایک اس کی صورت ہے، یعنی معاہدہ کے وقت ہاتھ پر ہاتھ رکھنا، یا کپڑا وغیرہ ہاتھ میں دے دینا، تو یہ عمل مباح ہے، لیکن مامور بہ کے کسی درجہ میں نہیں، حتیٰ کہ اس کے استحباب کا بھی حکم نہیں کیا جاسکتا، کیوں کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے جو منقول ہے وہ بطور عبادت اور دین کے نہیں بلکہ بطور عادت کے ہے، کیوں کہ عرب میں معاہدہ کے وقت یہ رسم تھی، چنانچہ اسی عادت کی بناء پر اس کو صفقہ بھی کہا جاتا ہے۔
خلاصہ یہ کہ یہ بیعت معتادہ صلحاء حقیقت کے اعتبار سے مستحب سے زیادہ نہیں، اور اس کی خاص ہیئت مباح سے زیادہ نہیں، لہٰذا اس کا درجہ علماً یا عملاً بڑھانا مثلاً اس کو شرطِ نجات قرار دینا یا تارک پر طعن کرنا یہ سب غلو فی الدین اور اعتداء حدود ہے، اگر کوئی شخص عمر بھر بھی بطریق متعارف کسی سے بیعت نہ ہو، اور خود علمِ دین حاصل کرکے یا علماء سے تحقیق کرکے اخلاص کے ساتھ احکام پر عمل کرتا رہے وہ ناجی اور مقبول اور مقرب ہے۔ البتہ تجربہ سے یہ کلیاً یا اکثریاً مشاہدہ ہوگیا ہے کہ جو درجہ عمل اور اصلاح کا مطلوب ہے وہ بدون اتباع و تربیت کسی کامل بزرگ کے بلا خطر اطمینان کے ساتھ عادۃً حاصل نہیں ہوتا، مگر اتباع کے لیے بھی صرف التزام کافی ہے، بیعت متعارف شرط نہیں، ولكن هذا آخر الكلام والله أعلم۔ كتبه اشرف علي۔"(النور، ص:8، ذیقعدہ 58ھ)
(امداد الفتاویٰ، ص:246، 247، ط : مکتبہ دار العلوم کراچی)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144111201671
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن