بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حضرت عمر رضي الله تعالی عنہ کا 20 رکعت تراویح کا حکم دینا بدعت یا دین میں اضافہ نہیں تھا


سوال

ہمارے نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ہم پر دینِ اسلام کو مکمل کر دیا، اب اگر کوئی دین میں نئی بات کرے اور اس کو ثواب  سمجھے تو یہ بدعت ہے،سوال یہ ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم آٹھ رکعت  تراویح پڑھی، لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے  20 رکعت تراویح پڑھنے کا حکم دیا، تو کیا اسے بھی بدعت  کہیں گے؟

جواب

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

’’جوشخص تم میں سے میرے بعدجیتارہا، وہ بہت سے اختلاف دیکھے گا، پس میری سنت کو اور خلفائے راشدین مہدیین کی سنت کو لازم پکڑو، اسے مضبوطی سے تھام لواوردانتوں سے مضبوط پکڑلو۔ نئی نئی باتوں سے احترازکرو، کیونکہ ہرنئی بات بدعت ہے اورہربدعت گمراہی ہے۔"

اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ حضرات خلفاء راشدینؓ (یعنی حضرت ابوبکرصدیق، عمر فاروق ، عثمان غنی اور علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہم ) کی پیروی    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی وصیت ہے،اور ان کی تابعداری دین کا حصہ ہے،اوراس سے اعراض ومخالفت بدعت وگمراہی ہے،لہذاحضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے جو 20 رکعت  تراویح  کا حکم دیا یہ عینِ دین ہے،دین میں نئی بات  يا بدعت ہر گزنہیں ہے۔

قاضی ابو یوسف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: میں نے حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے تراویح اور  حضرت عمر رضی اللہ عنہ كے طرز عمل كے بارے ميں سوال کیا تو آپؒ نے فرمایا: تراویح سنتِ مؤکدہ ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی طرف سے 20رکعات مقرر نہیں کیں، اورنہ وہ کسی بدعت کے ایجاد کرنے والے تھے، آپ  نے جو 20  ركعات کا حکم دیاہے، اس کی آپ کے پاس ضرور کوئی اصل تھی اور ضرور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی حکم تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سنت جاری کی اور لوگوں کو ابی بن کعب رضی اللہ عنہ پر جمع کیا، پس انہوں نے تراویح کی جماعت کروائی، اس وقت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کثیر تعداد میں موجود تھے۔ حضرت عثمانؓ،علیؓ، ابن مسعودؓ، عباسؓ،ابن عباسؓ،طلحہؓ،زبیرؓ،معاذؓ،اُبیؓ اوردیگر مہاجرین و انصار رضی اللہ عنہم سب موجود تھے، مگر کسی نے بھی اس کو رد نہیں کیا، بلکہ سب نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے موافقت کی اور اس کا حکم دیا۔

(اختلافِ اُمت اور صراطِ مستقیم، ص:۲۹۲، بحوالہ الاختیارلتعلیل المختار، ج:۱،ص:۶۸)

مصنف ابن ابی شیبہ میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:

"حدثنا يزيد بن هارون، قال: أنا إبراهيم بن عثمان، عن الحكم، عن مقسم، عن ‌ابن ‌عباس،أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يصلي في رمضان ‌عشرين ركعة والوتر."

(‌‌كم يصلي في رمضان من ركعة ج : 2 ص : 164 ط : دارالتاج ،لبنان)

"ترجمه :  عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک میں بیس رکعت{تراویح}اور وتر پڑھا کرتے تھے۔"

"مشكاة المصابيح" میں ہے:

"وعنه: قال: صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم ثم أقبل علينا بوجهه فوعظنا موعظة بليغة ذرفت منها العيون ووجلت منها القلوب فقال رجل يا رسول الله كأن هذه موعظة مودع فأوصنا قال: «أوصيكم بتقوى الله والسمع والطاعة وإن كان عبدا حبشيا فإنه من يعش منكم يرى اختلافا كثيرا فعليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين تمسكوا بها وعضوا عليها بالنواجذ وإياكم ومحدثات الأمور فإن كل محدثة بدعة وكل بدعة ضلالة . رواه أحمد وأبو داود والترمذي وابن ماجه إلا أنهما لم يذكرا الصلاة".

(كتاب الايمان،باب الاعتصام بالكتاب والسنة،ج:1 ،ص: 58،ط:المكتب الاسلامي)

الاختيار لتعليل المختار  میں ہے:

"وروى أسد بن عمرو عن أبي يوسف قال: سألت أبا حنيفة عن التراويح وما فعله عمر؟ فقال: التراويح سنة مؤكدة ولم يتخرصه عمر من تلقاء نفسه ولم يكن فيه مبتدعا، ولم يأمر به إلا عن أصل لديه وعهد من رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولقد سن عمر هذا وجمع الناس على أبي بن كعب فصلاها جماعة والصحابة متوافرون منهم عثمان وعلي وابن مسعود والعباس وابنه وطلحة والزبير ومعاذ وأبي وغيرهم من المهاجرين والأنصار، وما رد عليه واحد منهم، بل ساعدوه ووافقوه وأمروا بذلك. والسنة إقامتها بجماعة لكن على الكفاية، فلو تركها أهل مسجد أساءوا، وإن تخلف عن الجماعة أفراد وصلوا في منازلهم لم يكونوا مسيئين".

(کتاب الصلوۃ،باب صلاۃ التراویح،ج:1،ص:68،ط: العلمية)

مزید تفصیل کے لیے دیکھیے:

تراویح کی بیس رکعات کا ثبوت اور آٹھ رکعت تراویح کے ثبوت میں اہل حدیث حضرات کے مستدل کا تحقیقی جواب

رکعاتِ تراویح بیس یا آٹھ۔۔۔۔۔!

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144503100658

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں