جامعہ کا نظم ونسق
جامعہ کے بانی محدث العصر علامہ سید محمد یوسف بنوری نور اللہ مرقدہ نے ادارے کی بنیاد شورائی نظم پر رکھی، آپ کا معمول یہ تھا کہ مدرسہ کے انتظامی اور تعلیمی امور میں اہلِ علم اور اہل تجربہ سے مشاورت کر کے فیصلہ فرماتے تھے، اس ضمن میں آپ رحمہ اللہ نے دو مجلسیں قائم کی تھیں:
(1) ’’مجلسِ شوریٰ‘‘، جو جامعہ کے منتخب اساتذہ پر مشتمل تھی، اس مجلس سے جامعہ کے خاص انتظامی امور میں مشورہ فرماتے تھے۔
(2) ’’مجلسِ تعلیمی‘‘، جو جامعہ کے اساتذہ میں سے نمایاں علمی شخصیات پر مشتمل تھی، اس مجلس سے تعلیمی امور میں مشاورت فرماتے تھے۔
ان دونوں مجلسوں کے علاوہ جامعہ کے تمام اساتذہ کرام پر مشتمل ایک ’’عمومی مجلس‘‘ تھی، جس میں علمی اور درسی امور سے متعلق مشورہ ہوتا تھا۔
حضرت اقدس مولانا بنوری نور اللہ مرقدہ کی وفات (3 ذو القعدہ 1397ھ مطابق 17 اکتوبر 1977ء) کے تین دن بعد جامعہ کی شوریٰ کا اجلاس ہوا اور تمام ارکان نے مولانا مفتی احمد الرحمٰن رحمہ اللہ (جن کو حضرت مولانا بنوری نور اللہ مرقدہ نے اپنی حیات مبارکہ کے اواخر میں حیاً و میتاً اپنا نائب مقرر فرمایا تھا) کو جامعہ کا مہتمم اور حضرت مولانا ڈاکٹر محمد حبیب اللہ مختار رحمہ اللہ کو نائب مہتمم مقرر کیا۔
مولانا مفتی احمد الرحمٰن رحمہ اللہ نے جامعہ کا اہتمام اور نظم و نسق خیر و خوبی سے چلایا اور اپنے اکابر کے منشا اور ان کی امیدوں کے مطابق جامعہ کو ترقی دی، الحمد للہ! اس کی کئی شاخیں قائم ہوئیں۔
مولانا مفتی احمد الرحمٰن رحمہ اللہ کی وفات (14 رجب 1411ھ مطابق 21 جنوری 1991ء) کے بعد جامعہ کی مجلس شوریٰ اور اساتذہ کا اجتماع منعقد ہوا اور ارکان مجلس نے بالاتفاق مولانا ڈاکٹر محمد حبیب اللہ مختار رحمہ اللہ کو جامعہ کا مہتمم اورمولانا سید محمد بنوری رحمہ اللہ کونائب مہتمم مقرر کیا ۔
2 رجب المرجب 1418ھ مطابق 2 نومبر 1997ء کو حضرت مولانا ڈاکٹر محمدحبیب اللہ مختار شہید رحمہ اللہ کی مظلومانہ شہادت کا سانحہٴ فا جعہ پیش آیا تو حسب معمول جامعہ کی شوریٰ میں اتفاق رائے سے حضرت بنوری رحمہ اللہ کے رفیق سفر وحضر اور قابل فخر شاگرد حضرت مولانا ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر رحمہ اللہ کو جامعہ کا مہتمم مقرر کیا گیا اور حضرت مولانا سید محمد بنوری رحمہ اللہ کو نائب مہتمم کے عہدہ پربدستور برقرار رکھا ،پھر 1419ھ مطابق 1998ء کو جب مولانا سید محمد بنوری رحمہ اللہ کی شہادت کا سانحہ پیش آیا تو جامعہ کی ’’مجلسِ شوریٰ‘‘ نے حضرت بنوری رحمہ اللہ کے صاحبزادے مولانا سید سلیمان یوسف بنوری حفظہ اللہ کو جامعہ کا نائب مہتمم مقرر کیا ۔
حضرت مولانا ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر رحمہ اللہ نے جامعہ کو واقعتًا اپنے محبوب شیخ و مربی حضرت بنوری نور اللہ مرقدہ کی امانت سمجھتے ہوئے تقریبًا چوبیس سال اس کے بے مثال خدمت کی، تا آں کہ طویل علالت کے بعد 19 ذو القعدہ 1442ھ مطابق 30 جون 2021ء بروز بدھ کو اس جہانِ فانی سے کوچ فرما گئے، تو جامعہ کی ’’مجلسِ شوریٰ‘‘ نے (اجلاس منعقدہ بتاریخ 24 ذو القعدہ 1442ھ مطابق 5 جولائی 2021ء بروز پیر، کے فیصلے کے مطابق) حضرت مولانا سید سلیمان یوسف بنوری دامت برکاتہم العالیہ (ابن محدث العصر حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری نور اللہ مرقدہ) کو اتفاقِ رائے سے مہتمم اور حضرت مولانا سید احمد یوسف بنوری مد ظلہ العالی (نبیرۂ محدث العصر حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری نور اللہ مرقدہ) کو نائب مہتمم مقرر کیا۔
جامعہ علوم اسلامیہ، حکومتِ پاکستان کے قانونی ضوابط کے مطابق ایک رجسٹرڈ ادارہ ہے، جس کا رجسٹریشن نمبر جوائنٹ اسٹاک کمپنیز کے ہاں 1351 ہے۔
جامعہ کے بانی حضرت بنوری رحمہ اللہ نے جامعہ کے انتظامی امور کی بنیاد شوریٰ پر رکھی تھی، الحمد للہ! اب بھی جامعہ کا انتظامی ڈھانچہ انہی خطوط پر استوار ہے، بلکہ جامعہ چونکہ اب کئی شاخوں پر محیط ہے اس لیے جامعہ کی عمومی مجلس شوریٰ میں تمام شاخوں کے اساتذہ شامل ہیں، سال میں متعدد بار تعلیمی سال کی ابتداء، سہ ماہی، ششماہی اور سالانہ امتحانات کی مناسبت سے اجتماعات ہوتے ہیں اور جامعہ کے انتظامی و تعلیمی امور پر قیمتی آراء و تجاویز زیر غور لائی جاتی ہیں، جب کہ خصوصی مجلس شوریٰ میں حضرت بنوری رحمہ اللہ کے طریق کار کے مطابق منتخب اساتذہ کرام شامل ہیں، جو جامعہ کے خاص انتظامی امور کی نگرانی و راہ نمائی کا فریضہ انجام دیتے ہیں، اس مجلس میں مہتمم، نائب مہتمم، ناظم تعلیمات اور شیخ الحدیث کے علاوہ منتخب اساتذہ کرام کے نام شامل ہیں جن کے اسماء گرامی کی فہرست مندرجہ ذیل ہے:
جامعہ کی ایک مجلس تعلیمی ہے جو جامعہ کے تجربہ کار اساتذہ پر مشتمل ہے، جن کا کام جامعہ کے نصاب تعلیم میں مفید اصلاحات، امتحانات کا انتظام اور دیگر تعلیمی امور کی نگرانی کرنا ہے، موجودہ مجلس تعلیمی کے اراکین کے اسماء گرامی یہ ہیں:
حضرت مولانا بنوری رحمہ اللہ کی ہمیشہ یہ کوشش رہتی تھی کہ جامعہ کے لیے باکمال، تجربہ کار اور مخلص اساتذہ کرام کا انتخاب ہو، نیز اساتذہ کرام کو ہمیشہ یہ نصیحت فرمایا کرتے تھے کہ ہر استاذ اپنے آپ کو جامعہ کا ملازم نہیں بلکہ ذمہ دار سمجھے، فرماتے کہ ہم سب اس ذمہ داری میں برابر کے شریک ہیں کیونکہ مجلس شوریٰ یا مجلس تعلیمی کی تشکیل محض انتظامی مجبوری کے تحت ہے، اس کا یہ مطلب نہیں کہ دوسرے اساتذہ کرام پر کسی قسم کی انتظامی، تربیتی یا اخلاقی ذمہ داری ہے ہی نہیں بلکہ عہدیدار اور غیر عہدیدار سب ہی ہر معاملہ میں اپنے آپ کو ذمہ دار اور مسئول سمجھیں، چنانچہ آپ کے ساتھ ایسے اساتذہ کرام اور رفقاء جمع ہوگئے جنہوں نے اپنے آپ کو علم اور اس جامعہ کی خدمت کے لیے وقف کر رکھا تھا۔
جامعہ کے مختلف شعبوں میں اس سال (1445ھ-2023ء) اساتذہ اور مدرسین کی تعداد تقریباً 423تک پہنچ گئی ہے، جس میں حسب ضرورت اضافہ ہوتا رہتا ہے، دیگر عملہ اس کے علاوہ ہے جس کی تعداد تقریباً 238 ہے، ان اساتذہ میں اکثریت ان حضرات کی ہے جو جامعہ کے فضلاء ہیں، جب کہ ان کے علاوہ بعض وہ علماء کرام ہیں جو ہند و پاک کے بڑے دینی اداروں کے سندیافتہ ہیں، بعض کے پاس سعودی عرب، مصر اور پاکستان کی مختلف یونیورسٹیوں سے ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں بھی ہیں اور ان میں بعض مختلف علمی تصانیف کے مصنف بھی ہیں۔
جامعہ میں اس وقت 1445ھ(2023ء) میں تقریباً 12,028طلبہ و طالبات تعلیم حاصل کررہے ہیں۔
جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے کہ حضرت مولانا بنوری رحمہ اللہ کی علمی اور بین الاقوامی شخصیت کی بناء پر جامعہ ایک عالمی ادارہ کی حیثیت اختیار کرچکا تھا، اسی لیے اس کے ابتدائی دور میں ہی بیرونی ممالک کے طلبہ تعلیم کے لیے جامعہ میں داخلہ لینے لگے، چنانچہ اس وقت تک جن ملکوں کے طلبہ تعلیم حاصل کرکے جاچکے ہیں ان کی تعداد ساٹھ سے زیادہ ہے، ذیل میں ان ملکوں کے نام درج کیے جاتے ہیں:
سعودی عرب، اردن، شام، تیونس، الجزائر، مراکش، یمن، مسقط، متحدہ عرب امارات، مالی، مصر، سوڈان، نائجیریا، فیجی، زمبیا، زمبابوے، یوگنڈا، موزمبیق، کینیا، تنزانیہ، جنوبی افریقہ، موریشس، جزر القمر، صومال، ایتھوپیا، بینین، کیمرون، بورکینافاسو، مدغاسکر، افغانستان، ملاوی، نیجر، آسٹریلیا، مغربی جرمنی، ہالینڈ، نیوزی لینڈ، فرانس، انگلینڈ، امریکا، ترکی، ری یونین، کرغزستان، ازبکستان، تاجکستان، قازقستان، چین، ایران، ہندوستان، بنگلہ دیش، برما، سری لنکا، نیپال، پرتگال، فلپائن، جاپان، ہانگ کانگ، سنگاپور، تھائی لینڈ، ملائیشیا، انڈونیشیا، سوازی لینڈ، وغیرہ۔