بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا ٹیکس زکاۃ کی رقم سےادا کیا جاسکتا ہے؟


سوال

جب دورِ خلافت اور اوئلِ اسلام کی اسلامی حکومتیں اپنے معاملات کی تکمیل اور عوامی فلاح کے کاموں کی تکمیل کے لیے زکاۃ وعشر کے نظام سے اکٹھا ہونے والی رقم سے استفادہ کرتیں تو  کیا اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کی زکاۃ وعشر موجودہ ٹیکس کا نعم البدل ہے، اگر ایسا ہے تو کیا میں اپنا واجب الادا ٹیکس اپنی زکاۃ سے ادا کر سکتا ہوں؟

جواب

واضح رہے کہ زکاۃ اور ٹیکس دونوں علیحدہ چیزیں ہیں، زکاۃ ایک فرض عبادت ہے، زکاۃ کے اپنے مخصوص مصارف ہیں،  جس میں مستحقینِ زکاۃ کو مالک بنا کر زکاۃ کا مال دیا جاتا ہے، فلاحی یا رفاہی کاموں میں براہِ راست زکاۃ کا مال استعمال کرنا درست نہیں، دور خلافت اور اوائل اسلام کی حکومتیں عوامی اور رفاہی کاموں کے لیے زکاۃ یا عشر کی رقوم سے استفادہ نہیں کرتی تھیں، بلکہ اس کے لیے مالِ غنیمت، خراج وغیرہ  یا بوقتِ ضرورت لوگوں پر مالی ذمہ داری عائد کرکے اس سے امور انجام دیے جاتے تھے، لہذا سائل کی مذکورہ بات درست نہیں ہے، اور اس کے لیے واجب الادا ٹیکس زکاۃ کی مد سے ادا کرنا جائز نہیں ہے۔

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک پر فتویٰ ملاحظہ کیجیے:

کیا ٹیکس ادا کرنے سے زکاۃ ادا ہوجائے گی؟

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106200394

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں