بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قبر مبارک میں نبی کریم ﷺ کی حیات سے متعلق فاسد عقیدہ رکھنے والے امام کی اقتدا میں نماز ادا کرنا


سوال

وہ علماء   جنہیں  پنج پیری  کہتے ہیں، کیا ان کے پیچھے نماز ہوتی ہے یا نہیں ؟اور  یہ بتائیں  کہ ان پنج پیری یعنی مماتیوں کا عقیدہ کیسا ہے؟ یہ لوگ اہلِ سنت والجماعت میں داخل ہیں یا نہیں ؟اور آپ صاحبان بھی اپنا موقف حیات النبی ﷺ میں واضح کردیں!

جواب

اہلِِ سنت و الجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ رسولِ اکرم  ﷺ  اور  تمام  انبیاءِ کرام علیہم الصلوات و التسلیمات  وفات  کے بعد اپنی قبروں میں زندہ  ہیں، ان کو  روزی دی جاتی ہے، ان کے اَبدانِ مقدسہ بعینہا محفوظ ہیں اور  جسدِ عنصری  کے ساتھ  عالمِ برزخ میں ان کو حیات حاصل ہے، اور  یہ حیات، حیاتِ دنیوی کے  مماثل، بلکہ بعض  وجوہ سے حیاتِ دنیوی سے زیادہ قوی تر ہے، البتہ اَحکامِ شرعیہ کے وہ مکلف نہیں ہیں،  روضہ اقدس میں جو درود پڑھا جاوے حضور  ﷺ اس کو خود بلا واسطہ سنتے ہیں۔

جو لوگ حیات النبیﷺ کا انکار کرتے ہیں  وہ اہلِ سنت و الجماعت سے خارج ہیں؛ اس لیے  ان کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے، اگر کسی  مسجد کا امام  قبورِ مبارکہ میں حیات الانبیاء علیہم السلام کا منکر ہو تو اس کے پیچھے نماز پڑھنے کے بجائے کسی دوسری جگہ صحیح عقیدہ والے امام کے پیچھے نماز پڑھنی چاہیے، البتہ اگر وقت کی تنگی یا کسی عذر کی وجہ سے مماتی امام کے پیچھے نماز نہ پڑھنے کی صورت میں جماعت کے چھوٹنے کا اندیشہ ہو تو پھر جماعت کی نماز چھوڑنے کے بجائے مجبورًا اسی امام کے پیچھے نماز پڑھ لینی چاہیے، جماعت ترک نہیں کرنی  چاہیے، چاہے دل لگتا ہو یا نہ لگتا ہو، اور جو نمازیں اب تک ادا کی گئی ہوں،  وہ بھی ادا ہوگئی ہیں، ان کو دُہرانے کی ضرورت نہیں ہے، البتہ ایک صحیح العقیدہ باشرع امام کی اقتدا میں نماز پڑھنے پر جتنا ثواب ملتا ہے،  وہ نہیں ملے گا۔

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک پر جامعہ کے سابق رئیس دار الافتاء حضرت مولانا مفتی محمد عبدالسلام چاٹ گامی صاحب رحمہ اللہ کا تفصیلی فتویٰ ملاحظہ کیجیے:

حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حیات انبیاء علیہم السلام سے متعلق اہل سنت والجماعت کا عقیدہ

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 559):

"(ويكره) تنزيهاً (إمامة عبد ... وفاسق ... ومبتدع) أي صاحب بدعة، وهي اعتقاد خلاف المعروف عن الرسول لا بمعاندة بل بنوع شبهة، وكل من كان من قبلتنا (لا يكفر بها) حتى الخوارج الذين يستحلون دماءنا وأموالنا وسب الرسول، وينكرون صفاته تعالى وجواز رؤيته؛ لكونه عن تأويل وشبهة؛ بدليل قبول شهادتهم ... هذا إن وجد غيرهم وإلا فلا كراهة، بحر بحثاً. وفي النهر عن المحيط: صلى خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعة.

(قوله: نال فضل الجماعة) أفاد أن الصلاة خلفهما أولى من الانفراد، لكن لا ينال كما ينال خلف تقي ورع؛ لحديث: «من صلى خلف عالم تقي فكأنما صلى خلف نبي». قال في الحلية: ولم يجده المخرجون، نعم أخرج الحاكم في مستدركه مرفوعاً: «إن سركم أن يقبل الله صلاتكم فليؤمكم خياركم، فإنهم وفدكم فيما بينكم وبين ربكم»".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144105200466

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں