بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پرپال آن لائن مارکیٹنگ کے ذریعہ کمائی کا حکم


سوال

 پرپال  ڈیجیٹل  مارکیٹنگ  ایجنسی  کی  کمائی حلال ہے یاحرام ؟یہ online مارکیٹنگ ہے!

جواب

پرپال کے متعلق جو  معلومات حاصل ہوئیں، ان معلومات کے مطابق پرپال کمپنی میں کمائی کے تین ذرائع ہیں:

1- مضاربت

2- کمیشن

3- ایڈ پر کلک اور دوسروں کے  ساتھ شئیر کرنے پر کمپنی کی طرف سے عوض۔

نمبر وار ہر ایک کے شرعی حکم کو بیان کیا جائے گا:

1) مضاربت:

مضاربت کے جائز ہونے کے لیےچند  شرائط ہیں:

۱)سرمایہ حوالہ کرتے وقت یہ طے ہو کہ  حاصل شدہ نفع رب المال اور مضارب کے درمیان کس تناسب سے مشترک ہوگا یا پھر اتنیبات ضرورہو کہ جو نفع حاصل ہوگا یہ مضارب اور رب المال کے درمیان تقسیم ہوگا۔

۲)  نقصان کی صورت میں اولًا نفع سے نقصان پورا ہونا اور پھر اصل سرمائے  سے۔

۳)کاروبار کا حلال ہونا۔

۴) سرمائے کا کوئی خاص حصہ نفع کے طور پر طے نہ ہو،  مثلًا  سرمائے کا  5فیصد  2فیصد وغیرہ۔

صورتِ  مسئولہ میں پرپال کمپنی  سے مضاربت کا معاملہ کرنا متعدد وجوہ کی بنا  پر نا جائز ہے اور حاصل ہونے والا نفع حلال نہیں ہے :

الف)نفع میں سے کتنا فیصد پرپال کمپنی (مضارب) کو ملے گا اور کتنا فیصد رب المال (سرمایہ لگانے والے ) کو ملے گا،  اس بات کی تعیین  سرمایہ کاری کرتے وقت نہیں ہوتی اور نہ ہی اس بات کا ذکر ہوتا ہے کہ  نفع پرپال کمپنی اور سرمایہ کاری  کرنے والے کے درمیان مشترک ہوگا۔اس بنا  پر مضاربت فاسد ہوجاتی ہے اور نفع حلال نہیں رہتا۔

ب)کمپنی سرمایہ لگانے والے کو یقین دلاتی ہے کہ  450 دن میں سرمایہ واپس کردے گی، جب کہ  مضاربت کے معاملہ میں سرمائے کی واپسی کی یقین دہانی نہیں کی جاسکتی؛ کیوں کہشرعًا مضاربت میں نقصان ہونے کی صورت میں اولًا موجود نفع سے نقصان پورا کیا جائے گا  اور پھر سرمائے سے پورا کیا جائے گا؛  لہذا سرمائے کی واپسی کی یقین دہانی معاملہ کو سودی معاملہ کے مشابہ بنا دے گی اور نفع حلال نہیں ہوگا۔

ج)پرپال کمپنی  90 فیصد سرمایہ مختلف کرپٹو اور ورچول کرنسی میں لگاتی ہے۔ورچول کرنسی میں کرنسی کی شرائط پوری نہ ہونے کی وجہ سے اس کے ذریعہ کمائی حلال نہیں ہے۔جب پرپال کی غالب آمدن اسی کے ذریعہ ہوتی ہے  تو پرپال میں سرمایہ کاری اور نفع کا حصول جائز نہیں ہے۔

باقی دس فیصد میں  بھی سوشل میڈیا ،الیکٹرونک میڈیا اور پرنٹ میڈیا   میں سرمایہ کاری کی جاتی ہے اور  چوں کہ ان سب میں اکثر جان دار  کی تصاویر کو دخل ہوتا  ہے؛  اس لیے اس سے حاصل ہونے والے منافع بھی حلال نہیں ہوں گے۔

د) پاور پیک میں سرمائے کا0.22%سے0.25%نفع ملتا ہے تو یہ سودی معاملہ ہے مضاربت کا معاملہ نہیں ہے ۔

2)کمیشن:

کمیشن شرعًا اجرتِ دلالی ہے  اور اصولی طور پر جہالت کی بنا  پر دلالی پر کمیشن جائز نہیں ہے، البتہ لوگوں کی حاجت اور عرف کی بنا  پر چند مخصوص صورتوں کو علماء نے جائز کہا ہے۔ وہ جائز صورت یہ ہے کہ کسی سامان کی خرید و فروخت کروانے پر دلال کو ایک طے  شدہ رقم  اجرت کے طور پر دی جائے  یا پھر ایک طے  شدہ فیصد کے حساب سے اجرت دی جائے۔

پرپال کمپنی میں جو سپانسر کو کمیشن ملتا ہے وہ اشیاء کی خرید و فروخت  کی بنا  پر نہیں ملتا، بلکہ کسی شخص کو پرپال کمپنی میں سرمایہ لگانے پر راغب کرنے یا اس سرمایہ لگانے کی کاروائی میں مدد کرنے پر ملتا ہے  گویا کہ مضارب اور رب المال کا آپس میں تعلق قائم کرانے پر ملتا ہے ،یہ صورت جواز والی صورت میں داخل نہیں ہے اور اپنے اصل پر باقی رہے گی اور جہالت کی بنا  پر یہ اجارہ جائز نہیں ہوگا  اور   کمیشن  حلال نہیں ہوگا۔  جواز کی صورت یہ ہوسکتی تھی کہ کمپنی اس شخص کو  وقت کے حساب سے اجرت پر  رکھتی کہ ہر روز یا ہر ماہ اتنی اجرت ملے  گی یا پھر فی آدمی اتنی رقم اجرت کے طور  پر ملے گی اور پھر یہ شخص لوگوں کو سرمایہ کاری کرنے پر راغب کرے، لیکن جب کمپنی کی سرمایہ کاری بنیادی طور پر درست نہیں ہے، اور اس کی آمدن شرعًا حلال نہیں ہے تو اجرت متعین کرکے بھی کمیشن پر کام کرنا درست نہیں ہوگا۔

مزید یہ کہ مینیجر اور ڈائریکٹر کو جو کاروائی مکمل کرنے پر کمیشن ملتا ہے اس میں مندرجہ بالا خرابی کے ساتھ یہ بھی ہے کہ وہ  کمپنی کے ملازم ہیں اور تنخواہ لیتے  ہیں تو اس تنخواہ کی وجہ سے تمام کام ان کے ذمے  ہیں پھر الگ سے کمیشن لینے کا حق ان کو نہیں ہے۔

3)ایڈ پر کلک کے ذریعہ:  

صورتِ  مذکورہ میں  اولًا اشتہارات میں جان دار کی تصاویر اور بہت سے غیر شرعی اشتہارات ہوتے ہیں، اس لیے اشتہارات پر کلک کرکے کمانا جائز نہیں ہے، اگر  ایڈ جان دار کی تصویر اور فحش چیزوں سے خالی  ہو تو بھی  ایڈ دیکھنے  اور اس  پر کلک  کرنے کے ساتھ جو کمائی مشروط ہو، وہ مندرجہ ذیل خرابیوں کی وجہ سے حلال اور طیب نہیں ہے  :

۱)ایڈ کے بدلہ جو عوض ملتا ہے وہ شرعًا اجرت ہوگی اور اجرت کے معاملہ کے درست ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اجرت جس کام کے بدلہ مل رہی ہے اس کام پر اجارہ معمول بہ ہو اور وہ کام ایسا ہو جس کو عقلِ سلیم معتدبہ کام تسلیم کرے۔ ایڈ پر کلک کرنا اور دیکھنا کوئی ایسا معتد بہ کام نہیں ہے جس پر اجارہ کا معاملہ جائز ہو اور نہ ہی یہ کوئی معمول بہ کام ہے جس پر اجارہ کا معاملہ ہوتا ہو؛  لہذا یہ ایڈ پر کلک اور ایڈ دیکھنا پر اجارہ کا معاملہ فاسد ہوگا اور اجرت حلال نہیں ہوگی۔

۲)عمومًا جو کمپنیاں یا ادارہ ایڈ دیکھنے پر عوض دیتے ہیں اس کا پس منظر یہ ہوتا ہے کہ وہ ادارہ یا کمپنی کسی شخص سے یہ معاہدہ کرتی ہے کہ آپ کے پروڈکٹ کی ہم تشہیر کریں گے یا آپ کی ویب سائٹ پر کوشش کرکے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو راغب کریں گے؛ تا کہ لوگ آپ کی اشیاء سے متعارف ہوکر اس کو خریدیں جس کو اصطلاحی زبان میں مارکیٹنگ کہتے ہیں۔وہ شخص اس کے بدلہ  میں مارکٹنگ کمپنی کو اجرت دیتا ہے۔اب یہ مارکٹنگ کمپنی لوگوں کو آفر کرتی ہے کہ آپ بیٹھ کر فلاں ایڈ پر کلک کریں اور دیکھیں ہم آپ کو اتنی رقم دیں گے۔جب ایک ہی شخص بیٹھ کر دن میں  100مرتبہ ایک ایڈ کو کلک کرتا ہے تو یہ مارکٹنگ کمپنی اس شخص کوکہتی ہے کہ  100 لوگوں نے آپ کے پروڈکٹ کو دیکھا ہے، حال آں کہ ایک ہی شخص نے دیکھا ہے۔اس طرح یہ مارکٹنگ کمپنی اپنے گاہکوں سے ایک قسم کا دھوکا کرتی ہے اور یہ ایڈ پر کلک کرنے والا شخص اور دیکھنے والا شخص اس مارکٹنگ کمپنی کا معاون بن جاتا ہے؛  لہذا اس کلک پر جو عوض ملتا ہے  وہ حلال طیب نہیں ہے۔

مزید دیکھیے:

مختلف ویب سائٹ میں ایڈ پر کلک کرکے پیسے کمانا

اس ساری تفصیل کا خلاصہ یہ ہوا کہ پرپال کمپنی میں  کمائی کے تین ذرائع ہیں۔ شرعی اصولوں کے مطابق نہ ہونے کی وجہ سے  تینوں ذرائع سے کمائی حلال  نہیں ہے۔

الفتاوى الهندية میں ہے:

(ومنها) أن يكون المشروط للمضارب مشروطا من الربح لا من رأس المال حتى لو شرط شيئا من رأس المال أو منه ومن الربح فسدت المضاربة كذا في محيط السرخسي.

(کتاب المضاربت  ،باب اول ج نمبر ۴ ص نمبر ۲۸۷،دار الفکر)

الفتاوى الهندية میں ہے:

ولو قال خذ هذا الألف فاعمل بالنصف أو بالثلث أو بالعشر أو قال خذ هذا الألف وابتع به متاعا فما كان من فضل فلك النصف ولم يزد على هذا شيئا أو قال خذ هذا المال على النصف أو بالنصف ولم يزد على هذا جازت استحسانا ولو قال اعمل به على أن ما رزق الله تعالى أو ما كان من فضل فهو بيننا جازت المضاربة قياسا واستحسانا هكذا في المحيط.

(کتاب المضاربت ،باب اول ج نمبر ۴ ص نمبر ۲۸۵،دار الفکر)

الفتاوى الهندية میں ہے:

منها أن تكون المنفعة مقصودة معتادا استيفاؤها بعقد الإجارة ولا يجري بها التعامل بين الناس فلا يجوز استئجار الأشجار لتجفيف الثياب عليها.

(کتاب الاجارۃ،باب اول ج نمبر ۴  ص نمبر ۴۱۱،دار الفکر)

الفتاوى الهندية میں ہے:

وإذا استأجر موضعا معلوما من الأرض ليتد فيها الأوتاد يصلح بها الغزل كي ينسج جاز لأنه من إجارات الناس ولو استأجر حائطا ليتد فيها الأوتاد يصلح عليها الإبريسم لينسج به شعرا أو ديباجا لا يجوز كذا ذكره بعض مشايخنا رحمهم الله تعالى لأن هذا ليس من إجارات الناس وفي عرف ديارنا ينبغي أن يجوز. كذا ذكره بعض مشايخنا لأن الناس تعاملوا ذلك في الفصلين جميعا وفي نوادر هشام استأجر وتدا يتد به جاز معناه

(کتاب الاجارۃ،باب خامس، فصل ثانی، ج نمبر ۴  ص نمبر ۴۴۳،دار الفکر)

الفتاوى الهندية میں ہے:

ذكر الكرخي في مختصره أن من استأجر نخلا أو شجرا ليبسط عليه ثيابه لا يجوز

(کتاب الاجارۃ،باب خامس ،فصل اول ج نمبر ۴  ص نمبر ۴۴۲،دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

(تفسد الإجارة بالشروط المخالفة لمقتضى العقد فكل ما أفسد البيع) مما مر (يفسدها) كجهالة مأجور أو أجرةأو مدة أو عمل، وكشرط طعام عبد وعلف دابة ومرمة الدار أو مغارمها وعشر أو خراج أو مؤنة رد أشباه

(قوله: أو مدة) إلا فيما استثنى: قال في البزازية: إجارة السمسار والمنادي والحمامي والصكاك وما لا يقدر فيه الوقت ولا العمل تجوز لما كان للناس به حاجة ويطيب الأجر المأخوذ لو قدر أجر المثل وذكر أصلا يستخرج منه كثير من المسائل فراجعه في نوع المتفرقات والأجرة على المعاصي.

(کتاب الاجارہ،باب الاجارۃ الفاسدۃ، ج نمبر۶ ص نمبر ۴۶،ایچ ایم سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

مطلب في أجرة الدلال [تتمة]

قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام وعنه قال: رأيت ابن شجاع يقاطع نساجا ينسج له ثيابا في كل سنة.

(کتاب الاجارہ ،باب الاجارۃ الفاسدۃج نمبر۶ ص نمبر ۶۳،ایچ ایم سعید)

الفتاوى الهندية میں ہے:

إذا استأجر رجلا ليبيع له بكذا أو يشتري له بكذا فهي فاسدة فإن باع وقبض الثمن فهو أمانة. كذا في الغياثية.

وإن ذكر لذلك وقتا فإن ذكر الوقت أولا ثم الأجر بأن قال له استأجرتك اليوم بدرهم على أن تبيع لي أو تشتري كذا جاز، وإن ذكر الأجرة أولا ثم الوقت بأن قال له استأجرتك بدرهم اليوم على أن تبيع وتشتري لا يجوز وإذا فسدت الإجارة وعمل وأتم العمل كان له أجر مثله على ما هو العرف في أهل ذلك العمل وذكر محمد - رحمه الله تعالى - الحيلة في استئجار السمسار وقال يأمره أن يشتري له شيئا أو يبيع ولا يذكر له أجرا ثم يواسيه بشيء إما هبة أو جزاء للعمل فيجوز ذلك لمساس الحاجة وإذا أخذ السمسار أجر مثله هل يطيب له ذلك تكلموا فيه قال الشيخ الإمام المعروف بخواهر زاده يطيب له ذلك وهكذا عن غيره وإليه أشار محمد - رحمه الله تعالى - في الكتاب هكذا في فتاوى قاضي خان.

(کتاب الاجارہ ،باب خامس، فصل اول،ج نمبر ۴ ص نمبر ۴۴۱،دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144110201558

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں