بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مختلف ویب سائٹ میں ایڈ پر کلک کرکے پیسے کمانا


سوال

کئی ویب سائٹ ہیں، جن میں پہلے کچھ پیسے جمع کروانے ہوتے ہیں اور پھر ان پیسوں کے حساب سے ایڈ ملتے ہیں اور پھر وہ ایڈ دیکھنے کمائی ہوتی، کیا یہ حلال ہے؟ اگر اس سلسلے میں کوئی فتوی ہو تو  ارسال فرمادیں!

جواب

آپ اگر متعلقہ کمپنی کی تفصیل  بتاکر جواب معلوم کرتے تھے تو اس صورت میں اس کمپنی کے کام کا شرعی حکم حتمی طور پر بتایا جاسکتا ہے، تاہم اس طرح کی ویب سائٹ میں جو عمومی شرعی خرابیاں پائی جاتی ہیں  وہ  درج ذیل ہیں :

1۔   اس میں ایسے لوگ  پراڈکٹ کے اشتہارات کو دیکھتے ہیں جن کایہ چیزیں لینے کا کوئی ارادہ ہی نہیں، بائع کو ایسے دیکھنے والوں کی تعداد میں اضافہ دکھانا جو کہ کسی طرح بھی خریدار نہیں، یہ بیچنے والے کے ساتھ  ایک قسم کا دھوکا ہے۔

2۔ اس میں کلک کرنے والا ایک ہی شخص کئی بار کلک کرتا ہے،  جس سے یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ اشتہار دیکھنے والے بہت سے لوگ ہیں، جس سے اشتہار دینے والوں کی ریٹنگ بڑھتی ہے، حال آں کہ یہ بات بھی خلافِ  واقعہ اور  دھوکا دہی  ہے۔

3۔  نیز ایڈ پر کلک ایسی چیز نہیں ہے جس منفعت مقصودہ ہے، اس لیے یہ اجارہ صحیح نہیں ہے۔

4۔   اگر ان اشتہارات میں جان دار کی تصاویر یا خواتین کے تصاویر بھی ہوں تو یہ اس پر مستزاد قباحت ہے۔

5۔  نیز ان ویب سائٹس میں تشہیر کے لیے یہ  طریقہ اختیار کیا جاتا ہے کہ  پہلے اکاؤنٹ بنانے والے کوہر نئے اکاؤنٹ بنانے والے پر کمیشن ملتا رہتا ہے، جب کہ  اس نے  اس نئےاکاؤنٹ بنوانے میں کوئی عمل نہیں کیا، اس بلا عمل کمیشن لینے کا معاہدہ کرنا اور  اس پر اجرت لینا بھی جائز نہیں۔ شریعت میں بلا  محنت کی کمائی   کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے اور  اپنی محنت   کی کمائی   حاصل کرنے کی ترغیب ہے  اور اپنے ہاتھ کی کمائی کو افضل کمائی قراردیا ہے ۔

لہذا  اس طرح کی ویب سائٹ میں رجسٹرڈ ہونا یا اس پیسہ کمانے جائز نہیں ہے۔

شعب الإيمان (2/ 434):

" عَنْ سَعِيدِ بْنِ عُمَيْرٍ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ الْكَسْبِ أَطْيَبُ؟ قَالَ: " عَمَلُ الرَّجُلِ بِيَدِهِ، وَكُلُّ بَيْعٍ مَبْرُورٍ ".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 4) :

"هي) لغة: اسم للأجرة وهو ما يستحق على عمل الخير ولذا يدعى به، يقال أعظم الله أجرك. وشرعا (تمليك نفع) مقصود من العين (بعوض) حتى لو استأجر ثيابا أو أواني ليتجمل بها أو دابة ليجنبها بين يديه أو دارا لا ليسكنها أو عبدا أو دراهم أو غير ذلك لا ليستعمله بل ليظن الناس أنه له فالإجارة فاسدة في الكل، ولا أجر له لأنها منفعة غير مقصودة من العين بزازية"

وفیہ ایضا (6/ 58) :

"(أو) استأجر (خبازا ليخبز له كذا) كقفيز دقيق (اليوم بدرهم) فسدت عند الإمام لجمعه بين العمل والوقت ولا ترجيح لأحدهما فيفضي للمنازعة (قوله فيفضي للمنازعة) فيقول المؤجر المعقود عليه: العمل والوقت ذكر للتعجيل ويقول المستأجر: بل هو الوقت والعمل للبيان". 

الموسوعة الفقهية الكويتية (1/ 290):

"الإجارة على المنافع المحرمة كالزنى والنوح والغناء والملاهي محرمة، وعقدها باطل لايستحق به أجرة . ولايجوز استئجار كاتب ليكتب له غناءً ونوحاً؛ لأنه انتفاع بمحرم ... و لايجوز الاستئجار على حمل الخمر لمن يشربها، ولا على حمل الخنزير".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144203200258

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں