بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وبائی ماحول میں نماز باجماعت ترک کرنے یا مساجد بند کرنے کے حوالے سے صحابہ کا کیا فتویٰ رہاہے؟


سوال

 صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم کے زمانہ میں اور ہمارے اکابرین رحمہم اللہ تعالی کا وبائی ماحول میں کیا فتویٰ رہا ہے؟  آیا جماعت اور جمعہ ترک کر دی جائیں یا شک کی بنیاد پر لوگوں کو مساجد سے روکا جائے؟ اگر اکابرین کی تصانیف کا حوالہ درج کر دیں تو شکر گزار ہوں گا!

جواب

شریعتِ مطہرہ میں مسجد میں باجماعت نماز نہ پڑھنے کا ایک عذر یہ بھی ہے کہ آدمی ایسی حالت میں ہو جس سے انسانوں کو یا فرشتوں کو اس سے اذیت ہو، اسی وجہ سے جس نے نماز سے پہلے بدبودار چیز کھالی ہو تو اسے اس حالت میں مسجد نہیں جانا چاہیے، بلکہ منہ سے بدبو دور کرکے مسجد میں جانا چاہیے،  فقہاء کرام نے ایسے مریض کو بھی اس میں شمار کیا ہے جس سے لوگوں کو طبعی طور پر کراہت و نفرت ہوتی ہو جیسے جذامی۔ مذکورہ تفصیل کی روشنی میں یقینی طور پر کرونا وائرس کے مریض کو بھی مسجد میں نماز نہ پڑھنے کے سلسلے میں معذور سمجھا جاسکتا ہے۔ لیکن جو اس مرض میں مبتلا نہ ہو، اس کے لیے یہ حکم نہیں ہے۔

کفایت المفتی میں ہے :

"۔۔۔ان صورتوں  میں خود مجذوم پر لازم ہے کہ وہ مسجد میں نہ جائے اور جماعت میں شریک نہ ہو اور اگر وہ نہ مانے تو لوگوں کو حق ہے کہ وہ اسے دخول مسجد اور شرکت جماعت سے روک دیں اور اس میں مسجد محلہ اور مسجد غیر محلہ کا فرق نہیں ہے، محلہ کی مسجد سے بھی روکا جاسکتا ہے تو غیر محلہ کی مسجد سے بالاولی روکنا جائز ہے اور یہ روکنا بیماری کے متعدی ہونے کے اعتقاد پر مبنی نہیں ہے بلکہ تعدیہ کی شرعاً کوئی حقیقت نہیں ہے بلکہ نمازیوں کی ایذا یا خوف تلویث مسجد یا تنجیس وباء نفرت و فروش پر مبنی ہے"۔ (ج۳ / ص ۱۳۸، دار الاشاعت)

                             تاہم جس محلہ میں کرونا وائرس کی وبا  عام نہ ہو تو کرونا وائرس کے ڈر سے جماعت کی نماز ترک کردینا شرعی عذر نہیں ہے، بلکہ توہم پرستی ہے جو کہ ممنوع ہے۔

عمدة القاري شرح صحيح البخاري (6 / 146):

"وكذلك ألحق بذلك بعضهم من بفيه بخر، أو به جرح له رائحة، وكذلك القصاب والسماك والمجذوم والأبرص أولى بالإلحاق، وصرح بالمجذوم ابن بطال، ونقل عن سحنون: لاأرى الجمعة عليه، واحتج بالحديث. وألحق بالحديث: كل من آذى الناس بلسانه في المسجد، وبه أفتى ابن عمر، رضي الله تعالى عنهما، وهو أصل في نفي كل ما يتأذى به".

                           اور جس محلہ میں کروا وائرس کی وباء عام ہوجائے تو اس محلہ کے لوگوں کے لیے مسجد میں نماز نہ پڑھنے کی رخصت تو ہوگی، البتہ اس محلے کے چند لوگوں کو پھر بھی مسجد میں باجماعت نمازوں کا اہتمام کرنا ہوگا  اور اگر مسجد میں باجماعت نماز پورے محلے والوں نے ترک کردی تو پورا محلہ گناہ گار ہوگا،؛ کیوں کہ مسجد کو اس کے اعمال سے آباد رکھنا فرض ِ کفایہ ہے۔ مذکورہ بالا تفصیلات سے معلوم ہوا کہ اصحابِ اقتدارکا مسجد میں جماعت سے نماز پڑھنے پر پابندی لگانا جائز نہیں ہے ۔ اور بغیر شرعی عذر کے مساجد کو بند کردینے پر نصوص میں سخت وعید وارد ہوئی ہے اور ان کے اس عمل کو "ظلم" قرار دیا گیا ہے۔اس لیے کہ  باجماعت نمازیں پڑھنا اور بالخصوص جمعہ کی نماز پڑھنا، یہ شعائرِ اسلام میں سے ہے۔

الفتاوى الهندية (1 / 146):

"الإمام إذا منع أهل المصر أن يجمعوا لم يجمعوا، قال الفقيه أبو جعفر - رحمه الله تعالى -: هذا إذا نهاهم مجتهدًا بسبب من الأسباب وأراد أن يخرج ذلك الموضع من أن يكون مصرًا، فأما إذا نهاهم متعنتًا أو ضرارًا بهم، فلهم أن يجتمعوا على رجل يصلي بهم الجمعة، كذا في الظهيرية".

البناية شرح الهداية (3 / 78):

"وفي " المرغيناني ": إذا منع الإمام أهل المصر أن يجمعوا لايجمعون، وقال أبو جعفر: هذا إذا منعهم باجتهاد، وأراد أن يخرج تلك البقعة أن تكون مصرًا، فأما إذا نهاهم تعنتًا أو إضرارًا بهم، فلهم أن يجمعوا على من يصلي بهم".

            التفسير المظهري (1 / 116):

"منصوب على العلية اى كراهة ان يذكر وسعى في خرابها بالتعطيل عن ذكر الله فانهم لما منعوا من يعمره بالذكر فقد سعوا في خرابه".

فتح القدير للشوكاني (1 / 153):

"والمراد بالسعي في خرابها: هو السعي في هدمها، ورفع بنيانها، ويجوز أن يراد بالخراب: تعطيلها عن الطاعات التي وضعت لها، فيكون أعم من قوله: أن يذكر فيها اسمه فيشمل جميع ما يمنع من الأمور التي بنيت لها المساجد، كتعلم العلم وتعليمه، والقعود للاعتكاف، وانتظار الصلاة ويجوز أن يراد ما هو أعم من الأمرين، من باب عموم المجاز".

صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور اسلافِ امت کا عمل:

صحابہ اور اسلاف کے زمانہ میں ایسی کوئی نظیر نہیں ملتی کہ انہوں نے وبا والے علاقوں میں نماز باجماعت ترک کردی ہو یا مساجد بند کردی ہوں بلکہ اس کے برعکس اور زیادہ عبادات کا اہتمام بڑھ جاتا تھا۔

قاضی عبد الرحمن القرشی الدمشقی الشافعی اپنے زمانہ میں 764 ھ کے طاعون سے متعلق لکھتے ہیں:

’’جب طاعون پھیل گیا اور لوگوں کو ختم کرنے لگا، تو لوگوں نے تہجد، روزے، صدقہ اور توبہ واستغفار کی کثرت شروع کردی اور ہم مردوں،  بچوں، اور عورتوں نے گھروں کو چھوڑدیا ہے اور مسجدوں کو لازم پکڑ لیا، تو اس سے ہمیں بہت فائدہ ہوا‘‘۔

قال قاضي صفد محمد القرشي (ت: بعد ٧٨٠هـ) في (شفاء القلب المحزون في بيان ما يتعلق بالطاعون/مخطوط) ‏متحدثًا عن الطاعون سنة ٧٦٤هـ:

  ‏«وكان هذا كالطاعون الأول عمّ البلاد وأفنى العباد، و كان الناس به على خير عظيم: ‏مِن إحياء  الليل، وصوم النهار، والصدقة، والتوبة .... ‏فهجرنا البيوت؛ ولزمنا المساجد،  ‏رجالنا وأطفالنا ونساءنا؛ ‏فكان الناس به على خير".

حیاۃ الصحابۃ میں ہے :

’’حضرت سعید بن مسیب  رحمہ اللہ کہتے ہیں:  جب حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ اُردن میں طاعون میں مبتلا ہوئے تو جتنے مسلمان وہاں تھے ان کو بلا کر ان سے فرمایا:
میں تمہیں ایک وصیت کررہا ہوں اگر تم نے اسے مان لیا تو ہمیشہ خیر پر رہو گے اور وہ یہ ہے کہ نماز قائم کرو، ماہِ رمضان کے روزے رکھو، زکاۃ ادا کرو، حج وعمرہ کرو، آپس میں ایک دوسرے کو (نیکی کی) تاکید کرتے رہو اور اپنے امیروں کے ساتھ خیرخواہی کرو اور ان کو دھوکا مت دو اور دنیا تمہیں (آخرت سے) غافل نہ کرنے پائے؛ کیوں کہ اگر انسان کی عمر ہزار سال بھی ہوجائے تو بھی اسے (ایک نہ ایک دن) اس ٹھکانے یعنی موت کی طرف آنا پڑے گا جسے تم دیکھ رہے ہو۔
اللہ تعالیٰ نے تمام بنی آدم کے لیے مرناطے کر دیا ہے، لہٰذا وہ سب ضرور مریں گے اور بنی آدم میں سب سے زیادہ سمجھ دار وہ ہے جو اپنے ربّ کی سب سے زیادہ اطاعت کرے اور اپنی آخرت کے لیے سب سے زیادہ عمل کرے۔ (2/165، ط: مکتبۃ الحسن)

                              اگر حکومت کی جانب سے باجماعت نمازوں پر پابندی لگادی جائے تو  ایک طرف یہ کوشش جاری رکھنی چاہیے کہ انہیں اسلامی اَحکام کے بارے میں آگاہ کریں اور ہر ممکن کوشش کریں کہ وہ پابندی ہٹادیں۔ اور جب تک پابندی رہے تو خوفِ ظلم کی وجہ سے اور حرج کی نفی کے پیشِ نظر مسجد کی نماز چھوٹ جانے کا عذر معتبر ہے۔ ایسی صورت میں کوشش کرے کہ گھر پر ہی باجماعت نماز کا اہتمام ہو۔ اور جمعہ کی نماز میں چوں کہ مسجد کا ہونا شرط نہیں ہے؛ لہذا امام کے علاوہ کم از کم تین مقتدی ہوں تو جمعہ کی نماز صحیح ہوجائے گی؛ لہذا مسجد کی اذانِ ثانیہ کے بعد (اگر مسجد میں اذان نہ ہو تو خود اذان دے دیں) امام خطبہ مسنونہ پڑھ کر دو رکعت نماز پڑھا دے،  چاہے گھر میں ہوں یا کسی اور جگہ جمعہ ہو کر پڑھ لیں۔

الفتاوى الهندية (1 / 148):

"(ومنها الجماعة) وأقلها ثلاثة سوى الإمام".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2 / 154):

"(قوله: وعدم خوف) أي من سلطان أو لص، منح".

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک پر جامعہ کے فتاوی ملاحظہ فرمائیں:

کرونا وائرس اور دیگر وبائی امراض میں مسلمانوں کے لیے راہ نمائی

کرونا وائرس اور باجماعت نمازوں پر پابندی!

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144107200752

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں