بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ماہِ صفر سے متعلق عوام میں رائج گم راہ کن عقائد اور اعمال


سوال

ماہ صفر کے متعلق عوام الناس میں گم راہ کن عقائد کیا کیا ہیں؟

 

جواب

ماہِ  صفر سے متعلق بعض عوام میں مختلف قسم کے غلط عقائد عوام میں رائج ہیں، بعض لوگ ماہِ صفر کو منحوس سمجھتے ہیں،  اور اس ماہ کو بلاؤں اور سرکش شیاطین (جنات) کے زمین پر اترنے کا مہینہ سمجھا جاتا ہے، اسی وجہ سے صفر کے مہینہ میں شادی بیاہ کرنے اور سفر وغیرہ کرنے سے اجتناب کیا جاتا ہے،، حال آں کہ خود نبی کریم ﷺ نے  واضح طور پر ماہِ صفر کے منحوس ہونے کی بالکل نفی فرمائی ہے، چنانچہ بخاری شریف میں رسول اللہ  ﷺ  کا ارشاد نقل کیا گیا ہے :

"(اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر) ایک شخص کی بیماری  دوسرے کو (خود بخود) لگ جانے (کا عقیدہ)، ماہِ صفر (کے منحوس ہونے کا عقیدہ) اور (ایک مخصوص) پرندے کی بد شگونی (کا عقیدہ) ان سب باتوں کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔"

اسی طرح بعض لوگوں میں یہ عقیدہ بھی رائج ہے کہ وہ ماہِ صفر کے آخری بدھ کو بہت بابرکت سمجھتے ہیں اور اسی وجہ سے ماہِ صفر کے آخری بدھ کو روزے، مخصوص نمازوں اور مخصوص صدقہ خیرات کرنے کا اہتمام بھی کرتے ہیں، اور ماہِ صفر  کے آخری بدھ کو  خوشی بھی مناتے ہیں، خوشی منانے کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ماہِ صفر کے آخری بدھ کو  آپ  ﷺ  نے غسلِ صحت فرمایا تھا، حال آں کہ روایات سے پتا چلتا ہے کہ ماہ ِ صفر کے آخری بدھ کو رسول اللہ ﷺ کو شفا نہیں ملی تھی، بلکہ آپ ﷺ کا مرض (مرض الوفات) انتہائی شدید ہوگیا تھا، لہٰذا اس دن خوشی منانا کافروں کا کام تو ہوسکتا ہے، مسلمانوں کا نہیں، لیکن بظاہر کفار نے ہی  سازش کے ذریعہ مسلمانوں کو اپنے نبی ﷺ کے مرض بڑھنے والے دن خوشیاں منانے پر لگادیا ۔

صحيح البخاري (7/ 128):

"حدثنا عبد العزيز بن عبد الله، حدثنا إبراهيم بن سعد، عن صالح، عن ابن شهاب، قال: أخبرني أبو سلمة بن عبد الرحمن، وغيره، أن أبا هريرة رضي الله عنه، قال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «لا عدوى ولا صفر ولا هامة»."

تفسير ابن كثير ت سلامة(4/ 146):

"صفر: سمي بذلك لخلو بيوتهم منه، حين يخرجون للقتال والأسفار، يقال: "صفر المكان": إذا خلا ويجمع على أصفار كجمل وأجمال."

حاشية السندي على سنن ابن ماجه (2/ 363):

"عن ابن عباس قال: «قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا عدوى ولا طيرة ولا هامة ولاصفر».

و لا صفر بفتحتين أريد به الشهر المشهور إما بمعنى أنهم يتشاءمون به ويريدون أنه يكثر فيه الدواهي والفتن، أو إنهم كانوا يجعلون المحرم صفرا فنهوا عنه."

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (7/ 2894):

"قال: كانوا يتشاءمون بدخول صفر، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: "«لا صفر»".

تحفة الأحوذي(6/ 296):

"و قيل: في الصفر قول آخر وهو أن المراد به شهر صفر وذلك أن العرب كانت تحرم صفر وتستحل المحرم فجاء الاسلام برد ما كانوا يفعلونه من ذلك فلذلك قال صلى الله عليه و سلم لا صفر قال بن بطال وهذا القول مروي عن مالك انتهى."

ماہ صفر کے متعلق عوام میں جو گم راہ کن عقائد و اعمال رائج ہیں، ان کی تفصیل  ماہنامہ بینات  میں شائع شدہ مضمون میں دیکھی جاسکتی ہے،  جس کا لنک نیچے دیا جارہا ہے۔

ماہ ِصفَر کی بدعات اور ایک من گھڑت حدیث کا جائزہ

فقط واللہ اعلم

 


فتوی نمبر : 144201201387

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں