بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

ماہ ِصفَر کی بدعات اور ایک من گھڑت حدیث کا جائزہ

ماہ ِصفَر کی بدعات اور ایک من گھڑت حدیث کا جائزہ

اسلامی سال کا دوسرا مہینہ ’’صَفَرُ المُظَفَّر‘‘شروع ہو چکا ہے،یہ مہینہ انسانیت میں زمانۂ جاہلیت میں منحوس، آسمانوں سے بلائیں اترنے والا اور آفتیں نازل ہونے والا مہینہ سمجھا جاتا تھا۔زمانۂ جاہلیت کے لوگ اس ماہ میں خوشی کی تقریبات (شادی، بیاہ اور ختنہ وغیرہ )قائم کرنا منحوس سمجھتے تھے۔ اور قابلِ افسوس امر یہ ہے کہ یہی نظریہ نسل در نسل آج تک چلا آرہا ہے، حالانکہ سرکارِ دوعالم ا نے بہت ہی صاف اور واضح الفاظ میں اس مہینے اور اس مہینے کے علاوہ پائے جانے والے والے توہمات اور قیامت تک کے باطل نظریات کی تردیداور نفی فرما دی اور علی الاعلان ارشاد فرما دیا کہ:(اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر) ایک شخص کی بیماری ، دوسرے کو (خود بخود)لگ جانے(کا عقیدہ) ماہِ صفر (میں نحوست ہونے کا عقیدہ) اور (ایک مخصوص) پرندے کی بد شگونی (کا عقیدہ) سب بے حقیقت باتیں ہیں۔ملاحظہ ہو: عن أبی ھریرۃ رضی اللّٰہ عنہ قال: قال النبی ا :’’لا عَدْوَیٰ ولا صَفَرَ ولا ھَامَۃَ‘‘۔                        (صحیح البخاری،کتاب الطب،باب الھامۃ، رقم الحدیث: ۵۷۷۰، المکتبۃ السلفیۃ) مذکورہ حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام میںاس قسم کے فاسد و باطل خیالات و نظریات کی کوئی گنجائش نہیں ہے، ایسے نظریات و عقائد کو سرکارِدو عالم ا اپنے پاؤں تلے روند چکے ہیں۔ ماہِ صفر کے بارے میں ایک موضوع اور من گھڑت روایت کا جائزہ ماہِ صفر کے متعلق نحوست والا عقیدہ پھیلانے کی خاطر دشمنانِ اسلام نے سرکارِ دو عالم ا کی طرف منسوب جھوٹی روایات پھیلانے جیسے مکروہ اور گھناؤنے افعال سے بھی دریغ نہیںکیا، ذیل میں ایک ایسی ہی من گھڑت روایت اور اس پر ائمہ جرح و تعدیل کا کلام ذکر کیا جاتا ہے،وہ من گھڑت حدیث یہ ہے: ’’مَنْ بَشَّرَنِیْ بِخُرُوْجِ صَفَرَ، بَشَّرْتُہٗ بِالْجَنَّۃِ ‘‘۔ ترجمہ:’’جو شخص مجھے صفر کے مہینے کے ختم ہونے کی خوشخبری دے گا، میں اُسے جنت کی بشارت دوں گا‘‘۔ اس روایت سے استدلال کرتے ہوئے صفر کے مہینے کو منحوس سمجھا جاتا ہے،طریقہ استدلال یہ ہے کہ چونکہ اس مہینہ میں نحوست تھی، اس لئے سرکار ِدوعالم ا نے اس مہینے کے صحیح سلامت گذرنے پر جنت کی خوشخبری دی ہے۔ تو اس بارے میں جان لینا چاہئے کہ : یہ حدیث صحیح و معتبر نہیں ہے، بلکہ موضوع اور لوگوں کی گھڑی ہوئی ہے۔اس کی نبی اکرم اکی طرف نسبت کرنا جائز نہیں ہے، چنانچہ ائمہ حدیث نے اس من گھڑت حدیث کے موضوع ہونے کو واضح کرتے ہوئے اس عقیدے کے باطل ہونے کو بیان کیا ہے، ان ائمہ میں ملا علی قاریؒ، علامہ عجلونیؒ،علامہ شوکانیؒ اور علامہ طاہر پٹنی رحمہم اللہ وغیرہ شامل ہیں، ان حضرات ِ ائمہ کا کلام ذیل میں پیش کیا جاتا ہے:  ملا علی القاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’مَنْ بَشَّرَنِیْ بِخُرُوْجِ صَفَرَ، بَشَّرْتُہٗ بِالْجَنَّۃِ‘‘ لا أصل لہ‘‘۔(الأسرار المرفوعۃ فی الأخبار الموضوعۃ المعروف بالموضوعات الکبریٰ،حرف المیم،رقم الحدیث:۴۳۷،۲؍۳۲۴،المکتب الإسلامی)  اورعلامہ اسماعیل بن محمد العجلونی رحمہ اللہ ملا علی قاری رحمہ اللہ کے حوالے سے تحریر کرتے ہیں کہ: ’’مَنْ بَشَّرَنِیْ بِخُرُوْجِ صَفَرَ، بَشَّرْتُہٗ بِالْجَنَّۃِ ‘‘ قال القاری فی الموضوعات تبعاً للصغانی: ’’لا أصل لہ‘‘۔   (کشف الخفاء و مزیل الإلباس، حرف المیم،رقم الحدیث:۲۴۱۸، ۲؍۵۳۸،مکتبۃ العلم الحدیث ) اور شیخ الاسلام محمد بن علی الشوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’مَنْ بَشَّرَنِیْ بِخُرُوْجِ صَفَرَ، بَشَّرْتُہ بِالْجَنَّۃِ ‘‘ قال الصغانی: ’’موضوع‘‘۔ وکذا قال العراقی۔(الفوائد المجموعۃ فی الأحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ للشوکانیؒ،کتاب الفضائل، أحادیث الأدعیۃ والعبادات فی الشھور، رقم الحدیث:۱۲۶۰،ص:۵۴۵،نزارمصطفیٰ الباز، مکۃ المکرمۃ) اور علامہ محمد طاہر پٹنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وکذا (أی: موضوع) ’’مَنْ بَشَّرَنِیْ بِخُرُوْجِ صَفَرَ، بَشَّرْتُہ بِالْجَنَّۃِ ‘‘ قزوینی، وکذا قال أحمد بن حنبل:اللآلیٔ عن أحمد ومما تدور فی الأسواق ولا أصل لہ۔    (تذکرۃ الموضوعات للفتنی،ص:۱۱۶،کتب خانہ مجیدیہ، ملتان) فتاویٰ عالمگیری میں ہے : ’’سألتہ فی جماعۃ لایسافرون فی صَفَر ولا یبدء ون بالأعمال فیہ من النکاح والدخول و یتمسکون بما روی عن النبی ا ’’مَنْ بَشَّرَنِیْ بِخُرُوْجِ صَفَرَ، بَشَّرْتُہ بِالْجَنَّۃِ‘‘ ھل یصح ھذا الخبر؟ وھل فیہ نحوسۃ ونھی عن العمل؟…قال:أما ما یقولون فی حق صفر، فذالک شییٔ یذکرہ أھل النجوم لتنفیذ مقالتھم ینسبون إلیٰ النبی ا وھو کذب محض کذا فی جواھر الفتاویٰ‘‘۔                    (الفتاویٰ الھندیۃ،کتاب الکراھیۃ:۵؍۵۶۱،دارالکتب العلمیۃ) ترجمہ:’’میں نے ایسے لوگوں کے بارے میں دریافت کیاجو ماہِ صفرمیں سفر نہیں کرتے(یعنی: سفر کرنا درست نہیں سمجھتے )اور نہ ہی اس مہینے میں اپنے کاموں کو شروع کرتے ہیں، مثلاً: نکاح کرنا اور اپنی بیویوں کے پاس جاناوغیرہ اور اس بارے میں نبی اکرم ا کے اس فرمان ’’کہ جو مجھے صفر کے مہینے کے ختم ہونے کی خوشخبری دے گا، میں اُسے جنت کی بشارت دوں گا‘‘ سے دلیل پکڑتے ہیں،کیا نبی اکرم ا کا یہ فرمانِ مبارک (سند کے اعتبار سے )صحیح ہے؟ اور کیا اس مہینے میں نحوست ہوتی ہے ؟ اور کیا اس مہینے میں کسی کام کے شروع کرنے سے روکا گیا ہے ؟ …تو جواب ملا کہ ماہِ صفر کے بارے میں جو کچھ لوگوں میں مشہور ہے، یہ کچھ ایسی باتیں ہیں جو اہلِ نجوم کے ہاں پائی جاتی تھیں، جنہیں وہ اس لئے رواج دیتے تھے کہ ان کا وہ قول ثابت ہو سکے، جسے وہ نبی اکرم ا کی طرف منسوب کرتے تھے،حالانکہ یہ صاف اورکھلا ہوا جھوٹ ہے‘‘۔ نمبر: ۲    اس من گھڑت اور موضوع روایت کو ایک طرف رکھیں، اس کے بالمقابل ماہِ صفر کے بارے میں بہت ساری صحیح احادیث ایسی موجود ہیں جو ماہِ صفر کی نحوست کی نفی کرتی ہیں، تو ایسی صحیح احادیث کے ہوتے ہوئے موضوع حدیث پر عمل کرنایا اس کی ترویج کرنا اور اس کے مطابق اپنا ذہن بنانا کوئی عقل مندی کی بات نہیں ہے۔ نمبر : ۳    محدثین عظام کی تصریحات کے مطابق مذکورہ حدیث موضوع اور من گھڑت ہے، لیکن اگر کچھ لمحات کے لئے یہ تسلیم کر بھی لیا جائے کہ یہ حدیث صحیح ہے تو بھی اس حدیث سے ماہِ صفر کے منحوس ہونے پر دلیل پکڑنا درست نہیں ہے، بلکہ اس صورت میں اس کا صحیح مطلب اور مصداق یہ ہو گا کہ چونکہ سرکار دو عالم ا کا ربیع الاول میں وصال ہونے والا تھااور آپ ا کو اپنے رب عزوجل سے ملاقات کا بے حد اشتیاق تھا، اس لئے ربیع الاول کے شروع ہونے کا انتظار تھا، چنانچہ اس شخص کے لئے آپ نے جنت کی بشارت کا اعلان فرما دیا جو ماہِ صفر کے ختم ہونے کی (اور ربیع الاول شروع ہونے کی)خبر لے کر آئے۔ خلاصۂ کلام ! یہ کہ اس حدیث کا (بالفرض اگر صحیح ہوتی )ماہِ صفر کی نحوست سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے، بلکہ اُسے محض مسلمانوں میںغلط نظریات پھیلانے کی غرض سے گھڑا گیا ہے۔  ماہِ صفر کے آخری بدھ کی شرعی حیثیت ماہِ صفر کے بارے میں لوگوں میں مشہور غلط عقائد و نظریات میں سے ایک اس مہینے کے ’’آخری بدھ ‘‘ کا نظریہ بھی ہے کہ اس بدھ کو نبی اکرم ا کو بیماری سے شفا ملی اور آپ ا نے غسلِ صحت فرمایا، لہٰذااس خوشی میں مٹھائیاں بانٹی جاتی ہیں، شیرینی تقسیم کی جاتی ہے اور بہت سے علاقوں میں تو اس دن خوشی میں روزہ بھی رکھا جاتا ہے اور خاص طریقے سے نماز بھی پڑھی جاتی ہے، حالانکہ یہ بالکل خلافِ حقیقت اور خلافِ واقعہ بات ہے، اس دن تو نبی اکرم ا کے مرضِ وفات کی ابتداء ہوئی تھی، نہ کہ مرض کی انتہاء اور شفائ۔ یہ افواہ اور جھوٹی خبر دراصل یہودیوں کی طرف سے آپ ا کی مخالفت میں آپ ا کے بیمار ہونے کی خوشی میں پھیلائی گئی تھی اور مٹھائیاں تقسیم کی گئی تھیں۔ ذیل میں اس باطل نظرئیے کی تردید میں اکابر علماء کے فتاویٰ اور دیگر عبارات پیش کی جاتی ہیں، جن سے اس رسمِ بد اور غلط روش کی اور صفر کے آخری بدھ میں نبی اکرم ا کے شفایاب ہونے یا بیمار ہونے کی اچھی طرح وضاحت ہو جاتی ہے۔ ماہِ صفر کے آخری بدھ روزہ رکھنے کا شرعی حکم حضرت مولانا مفتی محمدشفیع صاحب رحمہ اللہ ’’امداد المفتین‘‘ میں ایک سوال کے جواب میں صفَر کے آخری بدھ کے روزے کی شرعی حیثیت واضح کرتے ہیں، جو ذیل میں نقل کیا جاتا ہے: ’’سوال: ماہِ صفر کا آخری چہار شنبہ بلادِ ہند میں مشہور بایں طور ہے کہ اس دن خصوصیت سے نفلی روزہ رکھا جاتا ہے اور شام کو کچوری یا حلوہ پکا کر کھایا جاتا ہے،عوام اس کو ’’کچوری روزہ‘‘ یا ’’پیر کا روزہ‘‘ کہتے ہیں، شرعاً اس کی کوئی اصل ہے یا نہیں؟ جواب:بالکل غلط اور بے اصل ہے، اس [روزہ] کو خاص طور سے رکھنا اور ثواب کا عقیدہ رکھنا بدعت اور ناجائز ہے، نبی اکرم ا اور تمام صحابہ رضوان اللہ علیہم سے کسی ایک ضعیف حدیث میں [بھی] اس کا ثبوت بالالتزام مروی نہیں اور یہی دلیل ہے اس کے بطلان و فساد اور بدعت ہونے کی، کیونکہ کوئی عبادت ایسی نہیں، جو نبی اکرم ا نے امت کو تعلیم کرنے سے بخل کیا ہو۔             (امداد المفتین، فصل فی صوم النذر و صوم النفل، ص:۴۱۶، دارالاشاعت) ماہِ صفر کے آخری بدھ ایک مخصوص طریقے سے ادا کی جانے والی نماز کا حکم اس دن میں روزہ رکھنے کی طرح ایک نماز بھی ادا کی جاتی ہے، جس کی ادائیگی کا ایک مخصوص طریقہ بیان کیا جاتا ہے، اس نماز کو بتلانے والے حضرات صوفیانِ کرام ہیں،نماز کا طریقہ یہ بیان کیا جاتا ہے کہ ماہِ صفر کے آخری بدھ دو رکعت نماز، چاشت کے وقت، اس طرح ادا کی جائے کہ پہلی رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد ’’قل اللّٰھم مالک الملک‘‘ والی دو آیتیں پڑھیں اور دوسری رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد ’’قل ادعوا اللّٰہ أو ادعوا الرحمن‘‘ والی دو آیتیں پڑھیںاور سلام پھیرنے کے بعد نبی اکرم ا پر درود بھیجیں اور ان الفاظ سے دعا کریں ’’اللّٰھم اصرِف عنِّیشرَّ ھذا الیومِ واعصِمْنِی شُؤمَہ واجْعَلْہ علَیَّ رحمۃً وبرکۃً وجنِّبْنِی عَمّا أخافُ فیہ من نُحوساتہ وکرباتہ بفضلک یا دافعَ الشرور، ویا مالکَ النشور، یا أرحمَ الراحمین‘‘۔ اس طریقۂ نماز کی تخریج علامہ عبد الحیٔ لکھنوی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’الآثارالمرفوعۃ فی الأخبار الموضوعۃ‘‘ میں کی ہے، آپ لکھتے ہیں : ومنھا: ’’صلاۃ الأربعاء الآخر‘‘ من شھر صفَر وھی رکعتان تصلیان وقت الضحیٰ، فی أولٰھما یقرأ بعد الفاتحۃ {قل اللّٰھم مالک الملک} الآیتین مرّۃً وفی الثانیۃ { قل ادعوا اللّٰہ أو ادعوا الرحمن} الآیتین ویصلی علی النبی بعد ما یسلِّم، ثم یقول:’’اللّٰھم اصرِف عنِّی شرَّ ھذا الیومِ واعصِمْنِی شُؤمَہٗ واجْعَلْہ علَیَّ رحمۃً وبرکۃً وجنِّبْنِی عَمّا أخافُ فیہ من نُحوساتہ وکرباتہ بفضلک یا دافعَ الشرور، ویا مالکَ النشور، یا أرحمَ الراحمین‘‘۔(مجموعۃ رسائل اللکنوی،’’الآثار المرفوعۃ فی الأخبار الموضوعۃ ‘‘، فیذکر صلوات وأدعیۃ مخصوصۃ،القول الفیصل فی ھٰذا المقام :۵/۹۴،إدارۃ القرآن کراتشی) اس کے بعدحضرت علامہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ’’اس قسم کی مخصوص طریقوں سے ادا کی جانے والی نمازوں کا حکم یہ ہے کہ اگر اس مخصوص طریقہ کی شریعت میں مخالفت موجود ہو تو کسی کے لئے ان منقول طریقوں کے مطابق نمازادا کرنا جائز نہیں ہے اور یہ مخصوص طریقے والی نماز شریعت سے متصادم نہ ہو تو پھر ان طریقوں سے نماز ادا کرنا مخصوص شرائط کا لحاظ رکھتے ہوئے جائز ہے، وگرنہ جائز نہیں ہے۔ وہ شرائط یہ ہیں: ۱:… اِن نمازوں کو ادا کرنے والااِن کے لئے ایسا اہتمام نہ کرے، جیسا کہ شرعاً ثابت شدہ نمازوں ( فرائض و واجبات وغیرہ )کے لئے کیا جاتا ہے۔ ۲:… ان نمازوں کو شارع علیہ السلام سے منقول نہ سمجھے۔ ۳:… ان منقول نمازوں کے ثبوت کا وہم نہ رکھے۔ ۴:… ان نمازوں کو شریعت کے دیگر مستحبات وغیرہ کی طرح مستحب نہ سمجھے۔ ۵:… ان نمازوں کا اس طرح التزام نہ کیا جائے جس کی شریعت کی طرف سے ممانعت ہو۔جاننا چاہئے کہ ہر مباح کام کو جب اپنے اوپر لازم کر لیا جائے، تو وہ شرعاً مکروہ ہو جاتا ہے۔اس کے بعد حضرت رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ موجودہ زمانے میں ایسے افراد معدوم (نہ ہونے کے برابر) ہیں، جو مذکورہ شرائط کی پاسداری رکھ سکیں اور شرائط کی رعایت کئے بغیر ان نمازوں کو ادا کرنے کا حکم اوپر گذر چکا ہے کہ یہ عمل ’’نیکی برباد، گناہ لازم‘‘ کا مصداق تو بن سکتا ہے، تقرب الی اللہ کا نہیں۔ ’’والحکم فی ھذین القسمین: أن نفسَ أدائِ تلک الصلوات المخصوصۃ بتراکیبَ مختصۃٍ لا یضرُّ ولا یمنعُ عنہ ما لم تشتَمِل تلک الکیفیۃُ علیٰ أمرٍ یمنَع عنہ الشرعُ ویزجر عنہ، فإن وجدت کیفیۃ تخالف الشریعۃ، فلارخصۃ فی أدائھا لأحدٍ مِن أرباب المشیخۃ، زعماً منھم أن ھذا ثابتٌ فی الطریقۃ، وإن خالف الشریعۃ لما ذکرنا سابقاً أن الطریقۃ لیست مباینۃ للشریعۃ، ومَن توھَّم ذلک فھو إما جاھل،وإما مجنون، وإما غافل، وإما مفتون، لکن یشترط فی الأخذ بھا: أن لا یھتم بھا أزید من اھتمام العبادات المرویۃ، لا سیما الواجبات والفرائض الشرعیۃ، وأن لا یظنھا منسوبۃ إلی صاحب الشریعۃ، ولا یتوھم ثبوت تلک الأحادیث المرویۃ، ولا یعتقد سُنیتھا واستحبابھا کاستحباب العبادات الشرعیۃ، ولا یلتزمھا التزاماً زجر عن الشرع، فإن کلَ مباحٍ یؤدّی إلی التزام ما لم یلزم یکون مکروھاً فی الشرع، ولا یعتقد ترتب الثواب المخصوص علیہ کترتب الثواب المخصوص علی ما نص علیہ الرسول ا، ویشترط مع ذلک فی کلیھما: ألّا ینجر التزامھا وأداء ھا إلیٰ فساد عقائد الجھلۃ، ولایفضی إلیٰ المفسدۃ بأن یظن ما لیس بسنۃ سنۃ، وما ھو سنۃ بدعۃ، ومِن ثمّ منَع صاحبُ ’’البحر الرائق‘‘ وغیرہ عن أداء أربع الظھر بعد الجمعۃ، وإن اختارہ جمع من الفقھاء للعلۃ الاحتیاطیۃ۔  ثم إن القسم الأول یجب کون الاھتمام بہ أقل من الاھتمام بالقسم الثانی؛ لئلا یورث ذلک إلیٰ ظن الأحادیث الموضوعۃ غیر موضوعۃ، بل لو قُبِل ترکُھا لم یُبعَد عند العالم الربانی۔ واللّٰہ أعلم، وعلمہ أحکم۔ولعمری! وجودُ مَن یشتغل بھا مع الشروط التی ذکرناھا فی زماننا ھذا نادرٌ، وحکم أداء ھا بدون ھذہ الشرائط ممَّا أسلفنا ذکرہ ظاھرٌ، ولعلمی مَن التزم بأنواع العبادات الثابتۃ بطرقھا الواردۃ۔کفیٰ ذلک لہ فی الدنیا والآخرۃ من غیر حاجۃ إلیٰ التزام ھذہ الصلوات المخترعۃ والعمل بالأحادیث المختلفۃ- فافھم واستقم-‘‘۔ (مجموعۃ رسائل اللکنوی،’’الآثار المرفوعۃ فی الأخبار الموضوعۃ ‘‘، فیذکر صلوات وأدعیۃ مخصوصۃ،القول الفیصل فی ھٰذا المقام :۵؍۱۰۳،۱۰۴،إدارۃ القرآن کراتشی) فتاویٰ رشیدیہ میں ہے: صفر کے آخری چار شنبہ کا حکم ’’سوال: صفر کے آخری چہار شنبہ کو اکثر عوام خوشی و سرور وغیرہ میں اطعام ُ الطعام [کھانا کھلانا] کرتے ہیں، شرعاً اس باب میں کیا ثابت ہے؟ جواب: شرعاً اس باب میں کچھ بھی ثابت نہیں، سب جہلاء کی باتیں ہیں۔                              (فتاوی رشیدیہ، کتاب العلم، ص:۱۷۱،عالمی مجلس تحفظ ِ اسلام،کراچی)‘‘ کفایت المفتی میں ہے: صفر کے آخری بدھ کی رسومات اور فاتحہ کاحکم ’’سوال: آخری چہار شنبہ جو صفر کے مہینے میں ہوتا ہے، اس کا کرنا شریعت میں جائزہے یا نہیں؟ الجواب: آخری چہار شنبہ کے متعلق جو باتیں مشہور ہیں اور جو رسمیں ادا کی جاتی ہیں، یہ سب بے اصل ہیں۔   (کفایت المفتی، کتاب العقائد:۲/۳۰۲، ادارہ الفاروق، جامعہ فاروقیہ کراچی)‘‘ فتاوی محمودیہ میں ہے: صفر کے آخری چہار شنبہ کو مٹھائی تقسیم کرنا ’’سوال: یہاں مراد آباد میں ماہِ صفر کے آخری چہار شنبہ کوکارخانہ داران ظروف کی طرف سے کاریگروں کو شیرینی تقسیم کی جاتی ہے، بلامبالغہ یہ ہزارہا روپیہ کا خرچ ہے، کیونکہ صدہا کاریگر ہیں اور ہر ایک کو اندازاً کم و بیش پاؤ بھر مٹھائی ملتی ہے، ان کے علاوہ دیگر کثیر متعلقین کو کھلانی پڑتی ہے، مشہور یہ روایت کر رکھی ہے کہ اس دن حضرت رسول اللہ ا نے غسل ِ صحت کیا تھا، مگر از روئے تحقیق بات برعکس ثابت ہوئی کہ اس دن حضرت رسولِ مقبول ا کے مرضِ وفات میں غیر معمولی شدت تھی، جس سے خوش ہو کر دشمنانِ اسلام یعنی یہودیوں نے خوشی منائی تھی۔احقر نے اس کا ذکر ایک کارخانہ دار سے کیا تو معلوم ہوا کہ جاہل کاریگروں کی ہوا پرستی اور لذت پروری اتنی شدید ہے کہ کتنا ہی ان کو سمجھایا جائے وہ ہرگز نہیں مانتے اور چوں کہ کارخانوں کی کامیابی کا دارومدار کاریگروں ہی پر ہے،تو اگر کوئی کارخانہ دار ہمت کر کے شیرینی تقسیم نہ کرے تو جاہل کاریگر اس کے کارخانہ کو سخت نقصان پہنچائیں گے، کام کرناچھوڑ دیں گے۔ الف: حقیقت کی رو سے مذکورہ تقسیم شیرینی کا شمار افعال ِکفریہ، اسلام دشمنی سے ہونا تو عقلاً ظاہرہے، تو بلا عذر ِ شرعی اس کے مرتکب پر کفر کا فتویٰ لگتا ہے یا نہیں ؟اگرچہ وہ مذکورہ حقیقت سے ناواقف ہی کیوں نہ ہو؟ ب:جاہل کاریگروں کی ایذاء رسانی سے حفاظت کے لئے کارخانہ داروں کو فعلِ مذکور میں معذور مانا جا سکتا ہے؟ ج: ماہِ صفر کے آخری چہار شنبہ سے متعلق جو صحیح روایات اوپر مذکور ہوئیں، وہ کس کتاب میں ہیں؟ د: حضرت رسولِ مقبول ا کے مرضِ وفات میں شدت کی خبر پا کر یہودیوں نے کس طرح خوشی منائی تھی؟ الجواب حامداً و مصلیاً: ماہِ صفر کے آخری چہار شنبہ کو خوشی کی تقریب منانا، مٹھائی وغیرہ تقسیم کرنا شرعاً بے دلیل ہے، اس تاریخ میںغسل ِ صحت ثابت نہیں، البتہ شدتِ مرض کی روایت ’’مدارجُ النبوۃ‘‘(۲،۷۰۷-۷۰۴مدینہ پبلشنگ کمپنی،کراچی)میں ہے: ’’یہود کو آنحضرت ا کے شدتِ مرض سے خوشی ہونا بالکل ظاہر اور ان کی عداوت و شقاوت کا تقاضاہے‘‘۔ (الف) مسلمانوں کا اس دن مٹھائی تقسیم کرنا نہ شدتِ مرض کی خوشی میں [ہوتا] ہے، نہ یہود کی موافقت کی خاطر [ہوتا]ہے،نہ ان کو اس روایت کہ خبر ہے، نہ یہ فی نفسہ کفر و شرک ہے، اس لئے ان حالات میں کفر و شرک کا حکم نہ ہو گا۔ ہاں! یہ کہا جائے گا کہ یہ طریقہ غلط ہے، اس سے بچنا لازم ہے، حضور اکرم ا کا اس روز غسل ِصحت [کرنا] ثابت نہیں ہے،[اور آپ ا کی طرف] کوئی غلط بات منسوب کرنا سخت معصیت ہے، [نیز!] بغیر نیتِ موافقت بھی یہود کا طریقہ اختیار نہیں کرنا چاہئے۔ (ب) نہایت نرمی و شفقت سے کارخانہ دار اپنے کاریگروں کو بہت پہلے سے تبلیغ و فہمائش کرتا رہے اور اصل حقیقت اس کے ذہن میں اتار دے، ان کا مٹھائی کا مطالبہ کسی دوسری تاریخ میں حُسنِ اُسلوب سے پورا کر دے، مثلاً: رمضان، عید [الفطر]، بقر عید وغیرہ کے موقع پر دے دیا کرے، جس سے ان کے ذہن میں یہ نہ آئے کہ یہ بخل کی وجہ سے انکار کرتا ہے، بہر حال کارخانہ دار بڑی حد تک معذور ہے۔     (ج) مدارج ُ النبوۃ میں ہے۔ (۲،۷۰۷-۷۰۴مدینہ پبلشنگ کمپنی،کراچی)۔ (د) یہود نے کس طرح خوشی منائی؟ اس کی تفصیل نہیں معلوم۔                           (فتاویٰ محمودیہ،باب البدعات و الرسوم:۳/۲۸۰،ادارہ الفاروق، جامعہ فاروقیہ کراچی)‘‘ احسن الفتاوی میں ہے: صفر کے آخری بدھ میں عمدہ کھانا پکانا سوال:    ماہِ صفر کے آخری بدھ کو بہترین کھانا پکانا درست ہے یا نہیں؟ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ماہِ صفرکے آخری بدھ کو نبی کریم ا کو مرض سے شفاء ہوئی تھی، اس خوشی میں کھانا پکانا چاہئے، یہ درست ہے یا نہیں؟ بینوا توجروا الجواب:    یہ غلط اور من گھڑت عقیدہ ہے، اس لئے ناجائز اور گناہ ہے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم۔         (احسن الفتاویٰ، کتاب الایمان والعقائد، باب فی ردالبدعات:۱/۳۶۰، ایچ ایم سعید) فتاویٰ فریدیہ میں ہے: صفر کے آخری بدھ کو چُوری کرنا بدعت اور رسم قبیحہ ہے سوال:    ہمارے علاقے صوبہ سرحد میں ماہِ صفر میں خیرات کرنے کا ایک خاص طریقہ رائج ہے، جس کو پشتو زبان میں (چُوری) کہتے ہیں، عوام الناس کا عقیدہ یہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ ا کی صحت یابی کی خوشی میں کی تھی۔ ’’ماہنامہ النصیحہ‘‘ میں مولانا گوہر شاہ اور مولانا رشید احمد صدیقی مفتی دار العلوم حقانیہ نے اپنے اپنے مضامین میں اس کی تردید کی ہے کہ یہ (چُوری ) و خیرات یہودیوں نے حضور ا کی بیماری کی خوشی میں کی تھی اور مسلمانوں میں یہ رسم [وہاں  سے] منتقل ہوگئی ہے، اس کی وضاحت فرمائیے؟ الجواب:    چوں کہ چُوری نہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے اور نہ آثار اور کتبِ فقہ سے، لہٰذا اس کو ثواب کی نیت سے کرنا بدعتِ سیئہ ہے اور رواج کی نیت سے کرنا رسمِ قبیحہ اور التزام ما لا یلزم ہے، نیز حاکم کی روایت میں مسطور ہے کہ حضور ا کی بیماری کے آخری چہار شنبہ میں زیادتی آئی تھی اور عوام کہتے ہیں کہ بیماری میں خفت آگئی تھی اور عوام حضور ا کی طرف نسبت کرتے ہیں کہ ’’انہوں نے چُوری مانگی ‘‘ اور یہ نسبت وضع حدیث اور حرام ہے، لعدم ثبوت ھذا الحدیث فی کتب الأحادیث ولا بالإسناد الثابت، وھو الموفق۔              (فتاویٰ فریدیہ، کتاب السنۃ و البدعۃ، ۱/۲۹۶،مکتبہ دارالعلوم صدیقیہ صوابی ) چُوری کے بارے میں دلائل غلط اور من گھڑت ہیں سوال:     کیا فرماتے ہیں علماء دین، مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کے بارے میںکہ: صفر کے آخری بدھ کو جو چُوری کی جاتی ہے، اس کے جواز میں دو دلائل پیش کئے جاتے ہیں، (۱)کہ نبی اکرم ا اس صفر کے مہینے میں بیمار ہوئے تھے،پھر جب اس مہینے میں صحت یاب ہوئے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے شکریہ میں خیرات و صدقہ کیا ہے۔(۲)حضور ا جب اس مہینے میں بیمار ہوئے، تو یہود نے اس کی خوشی ظاہر کرنے کے لئے اس مہینے میں خیرات کی اور خوشی منائی، لہٰذا ہم جو یہ خیرات کرتے ہیں یا تو اس لئے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے خیرات کی تھی یا یہود کے مقابلے میں کہ جو انہوں نے خوشی منائی تھی، ہم قصداً اُن سے مقابلے میں تشکر ِ نعمت کے لئے کرتے ہیں، لہٰذا علماء دین اس مسئلہ کے بارے میں کیا فرماتے ہیں کہ یہ دلائل صحیح ہیں یا غلط؟ الجواب:    ثواب کی نیت سے چُوری کرنا بدعت ِسیئہ ہے،کیونکہ غیر سنت کو سنت قرار دینا غیرِ دین کو دین قرار دینا ہے، جو کہ بدعت ہے، ان مجوزین کے لئے ضروری ہے کہ ان احادیث ِ مذکورہ کی سند ذکر کریں اور یا ایسی کتاب کا حوالہ دیں جو کہ سندِ احادیث کو ذکر کرتی ہو یا کم ازکم کتب فقہ متداولہ کا حوالہ ذکر کریں، ولن یأتوا بھا ولو کان بعضھم لبعضٍ ظھیراً۔ مزید بریں! یہ کہ حاکم نے روایت کی ہے کہ پیغمبر ا آخری چہار شنبہ کو بیمار ہوئے، یعنی بیماری نے شدت اختیار کی اور تاریخ میں یہ مسطور ہے کہ یہود نے اس دن خوشی منائی اور دعوتیں تیار کیں اور یہ ثابت نہیں کہ اہلِ اسلام نے اس کے مقابل کوئی کارروائی کی۔ وھو الموفق۔                    (فتاویٰ فریدیہ، کتاب السنۃ و البدعۃ،۱/۲۹۸،مکتبہ دارالعلوم صدیقیہ صوابی ) چُوری کی خوراک کھانے کا حکم سوال:     چُوری کا شرعاً کیا حکم ہے؟ اور اس کی خوراک کھانا کیا حکم رکھتا ہے؟ بینوا وتوجروا الجواب:    چُوری بقصدِ ثواب مکروہ ہے، لأن فیہ تخصیص الزمان والنوع بلا مخصص،  یدل علیہ ما فی البحر:۲/۱۵۹۔ البتہ عوام کے لئے اس کا کھانا مکروہ نہیں ہے، لما فی الھندیۃ: ولا یباح اتخاذ الضیافۃ ثلاثۃ أیام فی أیام المصیبۃ وإذا اتخذ لا بأس بالأکل منہ، کذا فی خزانۃ المفتین۔۵/۳۸۰۔       (فتاویٰ فریدیہ، کتاب السنۃ و البدعۃ،۱/۲۹۹،مکتبہ دارالعلوم صدیقیہ صوابی ) فتاویٰ حقانیہ میں ہے:  صفر المظفر کے آخری بدھ کو خوشی منانے کی شرعی حیثیت سوال:    جناب مفتی صاحب ! بعض علاقوں میں یہ رواج ہے کہ کچھ لوگ ماہِ صفر المظفر کے آخری بدھ کو خوشیاں مناتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس دن رسول اللہ ا کو مرض سے شفاء ہوئی تھی اور اس دن بلائیں اوپر چلی جاتی ہیں، اس لئے اس دن خوشیاں مناتے ہوئے شیرینی تقسیم کرنی چاہئے، دریافت طلب امر یہ ہے کہ ماہِ صفر میں اس عمل کا شرعاً کیا حکم ہے؟ الجواب:    ماہِ صفر المظفرکو منحوس سمجھنا خلافِ اسلام عقیدہ ہے اور رسول اللہ ا نے اس سے سختی سے منع فرمایا ہے، اس ماہِ مبارک میں نہ تو آسمان سے بلائیں اترتی ہیںاور نہ اس کے آخری بدھ کو اوپر جاتی ہیں اور نہ ہی امام الانبیاء جنابِ محمد رسول اللہ ا کو اس دن مرض سے شفاء یابی ہوئی تھی، بلکہ مؤرخین نے لکھا ہے کہ ۲۸؍ صفر کو آنحضرت ا بیمار ہوئے تھے، لما قال العلامۃ مفتی عبد الرحیمؒ: ’’مسلمانوں کے لئے آخری چہار شنبہ کے طور پر خوشی کا دن منانا جائز نہیں۔’’شمس التواریخ‘‘ وغیرہ میں ہے کہ ۲۶؍صفر ۱۱؍ہجری دو شنبہ کو آنحضرت ا نے لوگوں کو رومیوں سے جہاد کرنے کا حکم دیا اور ۲۷؍صفر سہ شنبہ کو اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہ امیرلشکر مقرر کئے گئے، ۲۸؍صفر چہار شنبہ کو اگرچہ آپ ا بیمار ہوچکے تھے لیکن اپنے ہاتھ سے نشان تیار کر کے اُسامہؓ کو دیا تھا،ابھی (لشکر کے)کوچ کی نوبت نہیں آئی تھی کہ آخری چہار شنبہ اور پنج شنبہ میں آپ ا کی علالت خوفناک ہوگئی اور ایک تہلکہ سا مچ گیا، اسی دن عشاء سے آپ ا نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو نماز پڑھانے پر مقرر فرمایا۔                                                 (شمس التواریخ:۲/۱۰۰۸) اس سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ ۲۸؍ صفر کو چہار شنبہ (بدھ) کے روز آنحضرت ا کے مرض میں زیادتی ہوئی تھی اور یہ دن ماہِ صفر کا آخری چہار شنبہ تھا، یہ دن مسلمانوں کے لئے تو خوشی کا ہے ہی نہیں، البتہ! یہود وغیرہ کے لئے شادمانی کا دن ہو سکتا ہے، اس روز کو تہوار کا دن ٹھہرانا، خوشیاں منانا، مدارس وغیرہ میں تعظیم کرنا، یہ تمام باتیں خلافِ شرع اور ناجائز ہیں‘‘۔(فتاویٰ حقانیہ،کتاب البدعۃ والرسوم :۲/۸۴،جامعہ دارالعلوم حقانیہ، اکوڑہ خٹک،  وکذا فی فتاویٰ رحیمیہ،ما یتعلق بالسنۃ والبدعۃ:۲/۶۸،۶۹،دارالاشاعت) حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ اپنی تالیف ’’سیرت المصطفیٰ ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ: ’’ ماہِ صفر کے اخیر عشرہ میں آپ ا ایک بار شب کو اُٹھے اور اپنے غلام’’ ابو مویہبہ‘‘ کو جگایا اور فرمایا کہ مجھے یہ حکم ہوا ہے کہ اہلِ بقیع کے لئے استغفار کروں، وہاں سے واپس تشریف لائے تو دفعۃً مزاج ناساز ہو گیا، سر درد اور بخار کی شکایت پیدا ہو گئی۔یہ ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی باری کا دن تھا اور بدھ کا روز تھا‘‘۔                               (سیرت مصطفیٰ ا، علالت کی ابتدائ: ۳/۱۵۶،کتب خانہ مظہری، کراچی) سیرۃ النبی ا میں علامہ شبلی نعمانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ: ’’ صفر ؍ ۱۱ ہجری میں آدھی رات کو آپ ا جنت البقیع میں جو عام مسلمانوں کا قبرستان تھا، تشریف لے گئے، وہاں سے واپس تشریف لائے تو مزاج ناساز ہوا، یہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کی باری کا دن تھا اور روز چہار شنبہ [یعنی: بدھ کا دن] تھا‘‘ ۔                                           (سیرۃ النبی :۲/۱۱۵،اسلامی کتب خانہ) اسی کے حاشیہ میں ’’علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ‘‘ لکھتے ہیں: ’’اس لئے تیرہ [۱۳] دن مدتِ علالت صحیح ہے، علالت کے پانچ دن آپ ا نے دوسری ازواجؓ کے حجروں میں بسر فرمائے، اس حساب سے علالت کا آغاز چہار شنبہ (بدھ) سے ہوتا ہے‘‘۔                    ( حاشیہ سیرۃ النبی:۲/۱۱۴،اسلامی کتب خانہ) سیرۃ خاتم الانبیاء ا میں حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں کہ: ’’ ۲۸؍ صفر ۱۱؍ ہجری چہار شنبہ [بدھ] کی رات آپ ا نے قبرستان بقیع غرقد میں تشریف لے جا کر اہلِ قبور کے لئے دعا ئِ مغفرت کی اور فرمایا:اے اہلِ مقابر! تمہیں اپنا حال اور قبروں کا قیام مبارک ہو، کیونکہ اب دنیا میں تاریک فتنے ٹوٹ پڑے ہیں،وہاں سے تشریف لائے تو سر میں درد تھا اور پھر بخار ہو گیا اور بخار صحیح روایات کے مطابق تیرہ روز تک متواتر رہا اور اسی حالت میں وفات ہوگئی‘‘۔(سیرت خاتم الانبیائ، ص:۱۲۶، مکتبۃ المیزان،لاہور)۔ آخری بات: اوپر ذکر کردہ تفصیل کے مطابق ’’مَنْ بَشَّرَنِیْ بِخُرُوْجِ صَفَرَ، بَشَّرْتُہٗ بِالْجَنَّۃِ‘‘ والی روایت ثابت نہیں ہے، بلکہ موضوع اور من گھڑت ہے، اس کو بیان کرنا اور اس کے مطابق ا پنا ذہن و عقیدہ رکھنا جائز نہیں ہے۔ نیز! ماہِ صفر کے آخری بدھ کی شرعاً کوئی حیثیت نہیں ہے اور اس دن نبی اکرم ا کو بیماری سے شفاء ملنے والی بات بھی جھوٹی اور دشمنانِ اسلام یہودیوں کی پھیلائی ہوئی ہے،اس دن تو معتبر روایات کے مطابق نبی اکرم ا کی بیماری کی ابتداء ہوئی تھی نہ کہ شفائ۔ لہٰذا ہم سب کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم خود بھی اس طرح کے توہمات و منکرات سے بچیں اور حتیٰ الوسع دوسروں کو بھی اس طرح کی خرافات سے بچانے کی کوشش کریں۔اَللَّھُمَّ إِنَّا نَسْأَلُکَ مِنْ خَیْرِ مَا سَأَلَکَ مِنْہٗٗ نَبِیُّک مُحَمَّدٌ ا وَ عِبادُکَ الصَّالِحُوْنَ، وأَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّ مَا عَاذَ مِنْہٗ نَبِیُّک مُحَمَّدٌ ا وَ عِبَادُکَ الصَّالِحُوْنَ۔ ٭٭٭

 

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین