بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سوفٹ وئیر کاپی کرنا اور کتاب کی سیکنڈ کاپی لینا


سوال

1۔پیسوں میں  ملنے والے سافٹ ویئرغیر قانونی طریقےسے مفت ڈاؤن لوڈ کرنے کا حکم یا پھر مارکیٹ سے ان کی سی ڈی  لینا جو  کمپنی  کی اجازت کے بغیر بنائی جاتی ہیں کیسا ہے؟

2۔اسی طرح کچھ عصری کتاب جن کی کاپی رائٹ  کی اجازت نہیں ہوتی ہمیں کم قیمت میں ان کی سیکنڈ کاپی  مل جاتی ہے، اس کا لینا کیسا ہے؟

جواب

1۔مختلف قسم کے سافٹ ویئر جو کہ اس کے بنانے والے کے علاوہ کی جانب سے فراہم کیے جاتے ہیں جو عموماً مفت ہوتے ہیں ان کے استعمال  کی گنجائش ہے ؛ اس لیے کہ اس کی جو کاپی سی ڈی انٹر نیٹ پر فراہم کی جارہی ہے وہ اس بنانے والے کی ملکیت کا حصہ نہیں ہے، تاہم چوں کہ یہ قانونًا ممنوع ہے، اس لیے اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔

2۔  کتابوں کورائلٹی کی صورت میں محفوظ کرنا درست نہیں،اس لیے مصنف کی اجازت کے بغیربھی  سیکنڈ کاپی خریدنا جائز ہے ؛اس لیے کہ اس کی جو کاپی سی ڈی انٹر نیٹ پر  یا دوکان پر فراہم کی جارہی ہے وہ اس بنانے والے کی ملکیت کا حصہ نہیں ہے۔

تفصیل کے لیے فتاویٰ بینات جلد دوم ،کتاب المعاملات صفحہ:124تا131 کامطالعہ کیاجائے۔

مزید دیکھیے:

کریکڈ سوفٹ ویئر استعمال کرنا

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144103200177

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں