بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

زکاۃ کس کو دی جاسکتی ہے؟


سوال

ہم جو زکاۃ دیتے ہیں وہ کس کو دینا جائز ہے؟  کسی ادارے میں یا کسی اور کو ؟

جواب

جس مسلمان ضرورت مند شخص  کی ملکیت میں اس کی ضرورتِ  اصلیہ سے زائد  نصاب   (یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت) کے برابر  رقم نہیں ہے ، اور نہ ہی  اس  قدر ضرورت سے زائد  سامان ہے کہ جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر بنتی ہے اور نہ  ہی  وہ سید  ، ہاشمی ہے تو اس شخص کے لیے زکاۃ لینا جائز ہے، اور اس کو زکاۃ دینے سے زکاۃ ادا ہوجائے گی، نیز  زکاۃ  کی رقم میں تملیک شرط ہے یعنی جوشخص زکاۃ  کا مستحق ہے اسے زکاۃ  کی رقم کا مالک بنادیا جائے ،تملیک کے بغیر کارِ خیر میں خرچ کردینے سے زکاۃ ادا نہیں ہوگی۔

اگر کسی ادارے میں مستحق طلبہ پڑھتے ہیں یا کوئی ادارہ زکاۃ  کی رقم یا سامان کو مستحق لوگوں کو مالک بناکر دینے کا انتظام کرتا ہے تو ان کو زکاۃ دی جاسکتی ہے، البتہ ادارے کی ضروریات، تعمیرات، ملازمین کی تنخواہوں وغیرہ میں زکاۃ  کی رقم نہیں لگائی جاسکتی، اس سے زکاۃ  ادا نہیں ہوگی۔

لہذا آپ کسی مستحق زکاۃ  شخص کو خود مالک بنا کر زکاۃ  دے دیں، یا کسی قابلِ اعتماد ادارے مثلاً مدارس وغیرہ کو زکاۃ  دے سکتے ہیں۔فقط واللہ اعلم

زکاۃ  کے مصارف کی مزید تفصیل کے درج ذیل لنک پر فتوی ملاحظہ فرمائیں:

مصارفِ زکاۃ


فتوی نمبر : 144008201743

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں