بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

رخصتی کیسے کی جائے؟


سوال

رخصتی میں بارات کا کیا حکم ہے ؟حضرت  عائشہ رضی اللہ عنہا کو رخصتی کے وقت  ان کی والدہ چھوڑنے آئی تھیں، کیا عمومی  اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی طریقہ تھا ؟

جواب

فی زمانہ رخصتی کے لیے بہت سارے امور کو لازم سمجھاجاتاہے، مثلاً لڑکی کی رخصتی کے لیے باقاعدہ بارات کا اہتمام کرنا، کھانے کا انتظام وغیرہ ، جب کہ شرعی طور پر دلہن کی رخصتی کے لیے باقاعدہ بارات کا لے جانا نبی کریم ﷺاور اصحابِ رسول رضی اللہ عنہم سے ثابت نہیں۔ بلکہ نبی کریم ﷺاور صحابہ کرام کے نکاحوں میں  رخصتی سے متعلق عمومی انداز یہی معلوم ہوتاہے کہ یا لڑکی والے خود یعنی لڑکی کا والد یا ولی یا والدہ یا چند عورتیں مل کر لڑکی کو دلہاکے ہاں پہنچادیاکرتی تھیں، اور یا کسی معتمد آدمی کو بھیجا جاتاتھا جو لڑکی کو دلہا کے پہنچادیتا۔ نبی کریم ﷺ کی تربیت اور تعلیم کا اثر تھا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تکلفات سے پاک تھے، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ایک روایت میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بعض خوبیاں اور صفاتِ کریمہ بیان کی ہیں، ان میں سے خصوصیت سے یہ بیان کی کہ وہ بہت کم تکلف کرنے والے تھے۔ اور یہی رسول اللہ ﷺ کی تعلیم ہے کہ معاملات کو جتنا سہل اور آسان اور بے تکلف کیا جائے بہتر ہے ۔

لہذا افضل یہی ہے کہ لڑکی کو کسی مانوس عورت کے ساتھ رخصت کیاجائے یا لڑکی کے محارم میں سے  کوئی فرد لڑکی کو پہنچادے،  ورنہ دلہاخود چلاجائے یا کسی معتمد، محارم میں سے کسی فرد کو بھیج دیاجائے۔

البتہ اگر خلافِ شرع امور سے بچتے ہوئے لڑکے کے خاندان کے چند افراد اجتماعی صورت میں لڑکی  کی رخصتی کرواکر لے آئیں، اس کی بھی گنجائش ہے، بشرطیکہ شرعی شرائط یعنی پردہ کا اہتمام ہو، اختلاط سے اور تمام رسومات سے بچاجائے۔تفصیل  اور دلائل سابقہ فتوی میں درج کی گئی ہے،  جس کا لنک مندرجہ ذیل ہے :

رخصتی کا سنت طریقہ

نیز ذیل میں حکیم الامت  رحمہ اللہ کا کلام نقل کیاجاتاہے جواس موضوع پر  مفصل بھی ہے اور تسلی بخش بھی ہے ، چنانچہ حکیم الامت مجدد ملت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ ارشاد فرماتے ہیں:

’’ بارات ہندوؤں کی ایجاد اور ان کی رسم ہے:

اصل بات یہ ہے کہ یہ بارات وغیرہ ہندوؤں کی ایجاد ہے کہ پہلے زمانہ میں امن نہ تھا، اکثر راہزنوں (اور ڈاکوؤں) سے دوچار ہونا پڑتا تھا؛ اس لیے دولہا، دلہن اور اسبابِ زیور وغیرہ کی حفاظت کے لیے ایک جماعت کی ضرورت تھی، اور حفاظت کی مصلحت سے بارات لے جانے کی رسم ایجاد ہوئی، اور اسی وجہ سے فی گھر ایک آدمی لیا جاتا تھا کہ اگر اتفاق سے کوئی بات پیش آئے تو ایک گھر میں ایک ہی بیوہ ہو، اور اب تو امن کا زمانہ ہے، اب اس جماعت کی کیا ضرورت ہے؟ اب حفاظت وغیرہ تو کچھ مقصود نہیں، صرف رسم کا پورا کرنا اور نام آوری مد نظر ہوتی ہے۔ بارات کی قطعاً ضرورت نہیں۔

صاحبو! ان رسموں نے مسلمانوں کو تباہ کر ڈالا ہے؛ اسی لیے میں نے منگنی کا نام قیامتِ صغریٰ اور شادی (بارات) کا نام قیامتِ کبریٰ رکھا ہے۔ اب تو بارات بھی شادی کا رکنِ اعظم سمجھا جاتا ہے ( اور اس کے بغیر شادی ہی نہیں ہوتی)، اس کے لیے دولہا والے اور کبھی دلہن والے بڑے بڑے اصرار اور تکرار کرتے ہیں، اور اس سے غرض ناموری (شہرت) اور تفاخر ہے، حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہاکا رشتہ کیا اور رشتہ (طے کرنے) کے وقت تو حضرت علی رضی اللہ عنہ موجود تھے، لیکن نکاح کے وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ خود موجود نہ تھے، بلکہ معلق نکاح ہوا تھا کہ ’’إن رضي علي‘‘ یعنی اگر علی رضا مندی ظاہر کریں۔ چناں چہ جب وہ حاضر ہوئے تو انہوں نے کہا:"رضیتُ" اب نکاح تام ہوا۔

میر امطلب یہ نہیں کہ اس قصہ کو سن کر دولہا بھاگ جایا کرے،  شاید بعض لوگ ایسی سمجھ کے بھی ہوں۔ مطلب یہ ہے کہ بارات وغیرہ کے تکلف کی ضرورت نہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے خود نوشہ کے ہونے کی ضرورت نہیں سمجھی۔ پھر بارات کا ہونا کیوں ضروری سمجھا جائے!

بارات کے چند مفاسد:

بارات نااتفاقی اور ذلت کا سبب ہے، اس بارات کے  لیے کبھی دولہا والے، کبھی دلہن والے بڑے بڑے اصرار و تکرا ر کرتے ہیں، اور اس سے مقصود صرف ناموری اور تفاخر ہے۔ اکثر اس میں ایسا بھی کرتے ہیں کہ بلائے پچاس اور جا پہنچے سو، سو اول تو بن بلائے اس طرح کسی کے گھر جانا حرام ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ جو شخص دعوت میں بن بلائے جائے وہ گیا تو چور ہو کر، اور نکلا لٹیرا ہو کر۔  یعنی ایسا گناہ ہوتا ہے جیسے چوری اور لوٹ مار کرنا۔پھر دوسرے شخص کی اس میں بے آبروئی بھی ہو جاتی ہے۔ کسی کو رسوا کرنا یہ دوسرا گناہ ہوا۔ پھر ان امور کی وجہ سے اکثر جانبین میں ایسی ضدا ضدی اور بے لطفی (و کدورت بلکہ بس اوقات رنجش) ہوتی ہے کہ عمر بھر قلوب میں اس کا اثر باقی رہتا ہے۔ چوں کہ نااتفاقی حرام ہے؛ اس لیے اس کے اسباب بھی حرام ہوں گے؛ اس لیے یہ فضول رسم ہرگز ہرگز جائز نہیں۔

اب تو ان رسموں کی بدولت بجائے محبت و الفت کے جو کہ میل ملاپ سے اصلی مقصود ہے، اکثر رنج و تکرار اور شکایت (کی نوبت آجاتی ہے)، پرانے کینوں کو  تازہ کرنا اور صاحبِ تقریب کی عیب جوئی اور تذلیل کے درپے ہونا اور اس طرح کی دوسری خرابیاں دیکھی جاتی ہیں۔ اور چوں کہ ایسا لینا دینا، کھانا کھلانا عرفاً لازم ہو گیا ہے؛  اس لیے کچھ فرحت و مسرت بھی نہیں ہوتی، نہ دینے والے کو کہ وہ ایک بے گار سی اتارتا ہے، نہ لینے والے کو کہ وہ اپنا حقِ ضروری یا معاوضہ سمجھتا ہے۔ پھر لطف (و محبت) کہاں!  اس لیے ان تمام خرافات کا حذف کرنا واجب ہے۔

میں بارات کی رسم کو حرام سمجھتا ہوں:

یہ خرابیاں ہیں بارات میں جن کی وجہ سے بارات کو منع کیا جاتا ہے اور میں جو پہلے باراتوں میں جایا کرتا تھا، اس و قت تک میری سمجھ میں یہ خرابیاں نہ آئی تھیں۔ اب میں ان رسموں کو بالکل حرام سمجھتا ہوں۔

بیاہ شادی‘ بارات میں اگر آمد و رفت نہ ہو تو میل جول کی کیا صورت ہو:

بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر یہ رسوم (بارات) وغیرہ موقوف ہو جائیں تو پھر میل ملاپ کی کوئی صورت ہی نہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو میل ملاپ کی مصلحت سے معاصی (گناہوں) کا ارتکاب کسی طرح جائز نہیں ہو سکتا۔ پھر یہ کہ میل ملاپ اس پر موقوف بھی نہیں،  بلا رسوم کی پابندی ( اور بارات) کے اگر ایک دوسرے کے گھر جائیں یا اس کو بلائیں،  اس کو کھلائیں پلائیں،  کچھ امداد و سلوک کریں، جیسے یار دوستوں میں راہ و رسم جاری ہیں تو یہ ممکن ہے۔

بارات وغیرہ کی تمام رسموں کے ناجائز ہونے کی شرعی دلیل:

میرے نزدیک جو مجموعی ہیئت اس وقت تقریبات کی ہو رہی ہے اس کے ہر جز  کی قریب قریب اصلاح ضروری ہے،  تمام رسوم میں بجز اتلافِ مال (مال کے برباد کرنے) وارتکابِ معاصی کے مثلاً: ریا، تفاخر، اسراف اور دوسروں کے لیے موجبِ تکلیف ہوجانا، اور مقتدائے معاصی بن جانا (ان رسموں میں) کوئی دنیا کا بھی معتدبہ (لائقِ اعتبار) نفع نہیں۔ اس لیے میرے نزدیک ان کی قباحت بڑھی ہوئی ہے، میرے خیالات کا خلاصہ مختصر الفاظ میں یہ ہے کہ ہیئتِ متعارفہ (مروجہ طریقہ) کے اجزاء بدلنے کی ضرورت ہے، گو اکثر اجزاء اگر فرداً فرداً دیکھے جائیں تو مباح نکلیں گے۔

مگریہ قاعدہ شرعی بھی ہے اور عقلی بھی کہ جو مباح معصیت کا ذریعہ اور معینِ جرم بن جائے وہ بھی معصیت اور جرم ہوجاتا ہے۔ ان تقریبا ت کی بدولت کیا مسلمان مقروض نہیں بن جاتے؟!  کیا مہاجنوں کو سود نہیں دیتے؟!  کیا ان کی جائیداد اور مکان نیلام نہیں ہو جاتے؟!  کیا اہلِ تقریب کے ذہن میں اظہار و تفاخر و نمائش نہیں ہوتا؟!  اگر عام مجمع میں اظہار نہ ہو تو کیا خاص مجمع کے خیال سے ( کہ گھر پہنچ کر زیور و اسباب دیکھا جائے گا اس کی قیمت کا اندازہ کیا جائے گا) سامان نہیں کیا جاتا؟!  پھر ان رسوم میں تسلسل و ترتب کچھ اس قسم کا ہے کہ ایک کو کر کے سب ہی کو آہستہ آہستہ کرنا پڑتا ہے۔ کیا ان قیود و پابندیوں کو قیودِ شرعیہ سے عملاً زیادہ ضروری نہیں سمجھا جاتا؟!  نماز با جماعت فوت ہونے سے کیا کبھی ایسی شرمندگی ہوئی ہے جیسی جہیز میں چوکی پلنگ کے نہ دینے سے ہوتی ہے؟! گواس کی ضرورت نہ ہو جہیز میں ضروری سامان کا لحاظ (کرنے میں) شرعاً و عقلاً مضائقہ نہ تھا، مگر بہت یقینی امر ہے کہ ضروریات کی فہرست ہر جگہ جدا بنے گی، لیکن جہیز کی ایک ہی فہرست ہر جگہ ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رواج کی پابندی اس کی علت ہے، ضرورت پر اس کی بنیاد نہیں تو اس درجہ کی پابندی نہ عقلاً جائز نہ شرعاً درست۔ پس جب ان میں اس قدر مفاسد ہیں تو عقل یا نقل (شریعت) کب اس کی اجازت دے سکتی ہے؟!

صاحب حیثیت مال دار کے لیے بھی بارات وغیرہ کی رسمیں درست نہیں:

بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ صاحب جس کو گنجائش ہو وہ کرے،  جس کو نہ ہو وہ نہ کرے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو گنجائش والوں کو بھی گناہ کرنا جائز نہیں۔ جب ان رسوم کا معصیت ہوناثابت ہو گیا، پھر گنجائش سے اجازت کب طلب ہو سکتی ہے؟!  دوسرے یہ کہ جب گنجائش والے کریں گے تو ان کی برادری کے غریب آدمی بھی اپنی عزت و آبرو کی حفاظت کے لیے ضرور کریں گے۔ اس لیے ضروری امر اور مقتضا  یہی ہے کہ سب ہی ترک کر دیں۔

اگر یہ کہاجائے کہ کسی کو اگر گنجائش ہو تو دنیوی مذکورہ مضرتوں سے بھی محفوظ ہے اور نیت کی درستی اختیاری امر ہے، ہم نہ امور کو ضروری سمجھتے ہیں نہ تفاخر اور نمائش کا ہم کو خیال ہے؛  پس ایسے شخص کے لیے تو یہ سب امور جائز ہو جانے چاہییں۔

سو اول تو ذرا اس کا تسلیم کرنا مشکل ہے، تجربہ اس کو تسلیم نہ کرنے دے گا،  کیسا ہی گنجائش والا ہو، کچھ نہ کچھ گرانی اس پر ضرور ہو گی، اور نیت میں بھی فساد ضرور ہوتا ہے۔ لیکن اگر اس میں منازعت و مزاحمت نہ کی جائے تو سو میں ایک دو شخص ایسے مشکل سے نکل سکتے ہیں۔جب یہ حالت ہے تو یہ قاعدہ سننے کے قابل ہے کہ کسی شخص کے مباح فعل سے جو حدِ ضرورت سے ادھر نہ ہو (یعنی واجب نہ ہو) دوسرے شخص کو ضرر پہنچنے کا غالب گمان یا یقین ہو تو وہ فعل اس کے حق میں مباح نہیں رہتا۔ تو اس قاعدہ سے یہ اعمال و افعال اس محفوظ شخص کے حق میں بھی اس وجہ سے کہ دوسرے لوگ تقلید کر کے خراب ہوں گے ناجائز ہو جائیں گے۔

بارات مجموعہ معصیت ہے:

جو رسوم شریعت کے خلاف اکثر شادیوں میں ہوا کرتی ہیں ان ہی سے وہ مجمع معصیت کا مجمع ہو جاتا ہے، وہاں نہ بیٹھے، اور رسوم تو الگ رہیں، آج کل خود بارات ہی مجمع معصیت ہے،  اگر کوئی خرابی نہ ہو تو یہ خرابی تو ضرور ہی باراتوں میں ہوتی ہے کہ (عموماً) باراتی مقدارِ دعوت سے زائد جاتے ہیں،  جس کی وجہ سے بے چارے میزبان کو سخت دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کہیں قرض لیتا ہے کہیں اور کچھ فکر کرتا ہے۔ غرض بہت خرابی ہوتی ہے‘‘۔(اسلامی شادی ، باب 14 ، ص:151تا 155)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104200821

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں