بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

رخصتی کا سنت طریقہ


سوال

نکاح کے بعد رخصتی کا سنت طریقہ کیا ہے؟ کیا دولہا گھر والوں کے ساتھ لڑکی لینےجاسکتا ہے؟

جواب

لڑکی کی رخصتی کے لیے باقاعدہ طور پر بارات لے جانا ،جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت نہیں، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی (ایک) شادی میں دلہن کو لانے کے لیے ایک آدمی بھیجا ہے، خود دلہن کے گھر نہیں گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا رخصتی کے بارے میں یہ  بھی معمول تھا کہ لڑکی کاباپ یا ولی لڑکی کو تیار کرکے خود یا کسی اورمعتمد کے ہم راہ دولہا کے گھر پہنچا دیتا، جیسا کہ حضرت فاطمہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما کی رخصتی سے متعلق روایات سے معلوم ہوتا ہے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی رخصتی کے بارے میں  بخاری شریف کی روایت میں آتا ہے  کہ آپ کی والدہ آپ  کو حضور ﷺ کے ہاں پہنچا کر آئیں ۔نہ آپ ﷺ خود تشریف لے گئے تھے نہ آپ نے کسی کو بھیجا تھا۔

صحیح البخاری (۷۷۵/۲):

"عن عائشة رضي الله عنها: " تزوجني النبي  فأتتني أمي فأدخلتني الدار، فإذا نسوة من الأنصار في البيت، فقلن: على الخير والبركة، وعلى خير طائر".
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا  کی شادی کے بارے    میں واضح روایات  ہیں کہ آپ کو  ام ایمن رضی اللہ عنہا کے ساتھ حضرت علی کے گھر  روانہ کیا گیا اور ظا ہر ہے کہ حضرت ام ایمن آپ ﷺ کی آزاد کردہ باندی تھیں نہ کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی۔یعنی کہ لڑکی والوں کی طرف سے آپ کو چھوڑنے گئی تھیں نہ کہ لڑکے والوں کی جانب سے لینے آئی تھیں.

اتحاف السائل بما لفاطمة من المناقب (ص: 3):

"فجاءت مع أم أيمن، فقعدت في جانب البيت، وأنا في الجانب الآخر، فجاء النبي صلى الله عليه وسلم فقال: (ها هنا أخي؟) قالت أم أيمن: أخوك وقد زوجته ابنتك؟! ... وفي روایة أخری: فزوجه فاطمة، فقبض ثلاث قبضات، فدفعها إلى أم أيمن فقال: اجعلي منها قبضة في الطيب، والباقي فيما يصلح للمرأة من المتاع، فلما فرغت من الجهاز، وأدخلتها بيتاً قال: يا على، لا تحدثن إلى أهلك شيئاً حتى آتيك.

اور یہ بھی ہوا ہے کہ آپ ﷺ نے  کسی کو دلہن کو لینے کے لیے بھیجا ہے۔ جیسا کہ ام حبیبہ  رضی اللہ عنہا کی شادی میں پیش آیا.

وفي الاستیعاب في معرفة الأصحاب (۴۰۱/۴۔ ۴۰۲):

             "وروی عن سعید عن قتادة أن النجاشي زوج النبي أم حبیبة بنت أبي سفیان رضي الله عنهما بأرض الحبشة وأصدق عنه بمائتي دینار ... (إلی أن قال) زوجها إیاه النجاشي وجهزها إلیه وأصدقها أربعمائة دینار، و أولم علیها عثمان بن عفان لحماً وثریداً وبعث إلیها رسول الله  شرحبیل ابن حسنة فجآء بها ..." الخ

لہذا نکاح اور رخصتی کابہترطریقہ یہ ہے کہ مسجد میں نکاح کیا جائے پھر نکاح کے بعد   لڑکی کو اس کے محارم کے ذریعے دولہا کے گھر پہنچا دیا جائے اور اگر خود دولہا  اور اس کے گھر والے جا کر دلہن کو لے آئیں تو یہ بھی جائز ہے ،اس میں بھی شرعاً  کوئی حرج نہیں۔اور اس موقع پر اگر رشتہ دار خواتین وحضرات اور دوست واحباب جمع ہوجائیں اور غیر شرعی امور وبے جا تکلفات سے اجتناب کیا جائے تو اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ۔ البتہ بوقتِ رخصتی سادگی اختیار کرنا بہتر ہے ،خرافات اور ناجائز کاموں سے اجتناب لازم ہے ۔غرض اسلامی مزاج یہ ہے کہ جتنی سادگی اور بے تکلفی سے آدمی اس ذمہ داری سے سبک دوش ہو یہ زیادہ بہتر اور قابلِ ستائش ہے۔ اس میں میزبانوں کے لیے بھی آسانی ہے اور مہمانوں کی بھی راحت ہے۔

نیز نکاح کے موقع پر لڑکی والوں کی طرف سے کھانے کا انتظام  کا ثبوت   کسی صحیح حدیث سے تو نہیں؛ اس لیے اس طرح کی دعوت کرنا  ولیمہ کی طرح سنت نہیں  ہے، ہاں اگر کوئی نمود ونمائش سے بچتے ہوئے،  کسی قسم کے مطالبہ اور خاندانی دباؤ کے بغیر اپنی خوشی ورضا  سے اپنے اعزہ اور مہمانوں کوکھانا کھلائے تو  یہ مہمانوں کا اکرام ہے، اور اس طرح کی دعوت کا کھانا کھانا بارات والوں کے لیے جائز ہے، اور اگر  لڑکی والے  اس کو لازم سمجھیں اور  اس  کے اہتمام کے لیے قرضے لیے جاتے ہوں تو ایسی دعوت کرنا جائز نہیں  ہوگا ۔

 

مصنف عبد الرزاق الصنعاني (5/ 486):

"عن يحيى بن العلاء البجلي، عن عمه شعيب بن خالد، عن حنظلة بن سمرة بن المسيب، عن أبيه، عن جده، عن ابن عباس قال: كانت فاطمة تذكر لرسول الله صلى الله عليه وسلم، ... ثم دعا بلالاً، فقال: «يا بلال إني زوجت ابنتي ابن عمي، وأنا أحب أن يكون من سنة أمتي، إطعام الطعام عند النكاح، فأت الغنم فخذ شاةً وأربعة أمداد أو خمسةً، فاجعل لي قصعة لعلي أجمع عليها المهاجرين والأنصار، فإذا فرغت منها فآذني بها»، فانطلق ففعل ما أمره، ثم أتاه بقصعة فوضعها بين يديه، فطعن رسول الله صلى الله عليه وسلم في رأسها، ثم قال: «أدخل علي الناس زفةً زفةً [ص:488]، ولا تغادرن زفةً إلى غيرها» - يعني إذا فرغت زفة لم تعد ثانية - فجعل الناس يردون، كلما فرغت زفة وردت أخرى، حتى فرغ الناس، ثم عمد النبي صلى الله عليه وسلم إلى ما فضل منها، فتفل فيه وبارك وقال: "يا بلال احملها إلى أمهاتك، وقل لهن: كلن وأطعمن من غشيكن"، ثم إن النبي صلى الله عليه وسلم قام حتى دخل على النساء فقال: «إني قد زوجت ابنتي ابن عمي، وقد علمتن منزلتها مني، وإني دافعها إليه الآن إن شاء الله، فدونكن ابنتكن» ..."الخ ( المعجم الکبیر للطبراني، دار إحیاء التراث العربي ۲۲/ ۴۱۱، رقم: ۱۰۲۲)

لیکن اس روایت میں یحیی بن علاء بجلی   متروک راوی ہیں ،اس لیے یہ حدیث ضعیف ہے۔(فتاوی  دارالعلوم زکریا، 638ج3)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143908200187

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں