بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جان دار کی تصویر ناجائز ہے تو علماء کرام کیوں ویڈیو بناتے ہیں؟


سوال

 میں نے  ایک مسئلہ دیکھا کہ جان دار  چیز  کی ویڈیو اَپ لوڈ  کر کے پیسے کمانا جائز نہیں ہے.فتوی نمبر144007200317.جامعۃ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن۔

میرا سوال یہ ہے کہ  یہ بات تو سمجھ میں آرہی ہے کہ جو حرام چیزیں ہیں اس کا ایڈ یا ویڈیو اَپ لوڈ  کر کے پیسہ کمانا جائز نہیں ہے. لیکن جو جان دار والی بات ہے کہ جان دار کی ویڈیو اَپ لوڈ کر کے کمانا جائز نہیں. یہ بات کچھ سمجھ میں نہیں آتی. میں دیکھتا ہوں علماء حضرات کو چاہے وہ علماءِ ہند ہوں یا علماءِ پاکستان،  بڑے ہی اچھے سے یوٹیوب پر نظر آتےہیں،  ان کی تقاریر وغیرہ چلتی ہیں. اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ تمام علماء جان دار نہیں ہیں؟  اگر جان دار ہیں تو  ویڈیو بناکر ناجائز کام کر رہے ہیں (بقول فتاویٰ دارالعلوم دیوبند، و فتاوی جامعۃالاسلامیہ بنوری)؟  اگر یہ ساری چیزیں جائز ہیں تو کوئی  بندہ جان دار(علماءِ کرام) کی جائز ویڈیو  اَپ لوڈ  کر کے پیسہ کمائے تو یہ پیسہ ناجائز کیسے ہو سکتا ہے؟

جواب

 دینِ اسلام میں صورت گری، کسی بھی شکل میں ہو، کسی بھی طریقے سے بنائی جائے، بناوٹ کے لیے جو بھی آلہ استعمال ہو، کسی بھی غرض و مقصد سے تصویر بنائی جائے، حرام ہے، اس تنوع واختلاف سے صورت گری اور تصویر سازی کے حکم میں کوئی فرق یانرمی نہیں آتی، نصوص کی کثیر تعداداور بے شمار فقہی تصریحات اس مضمون کے بیان پر مشتمل ہیں، جو اہلِ علم سے مخفی نہیں ہیں، ماضی قریب تک تصویر سازی کی حرمت کا مسئلہ اہلِ علم کے ہاں مسلم و متفق علیہ رہا ہے اور اسے بدیہی امور میں سمجھا جاتا تھا، یعنی جس کو عرف نے تصویر کہا وہ تصویر قرار پائی۔لہذا کسی بھی جان دار کی تصویر کھینچنا ، بنانایا بنوانا ناجائز اور حرام ہے، خواہ  اس تصویر کشی کے  لیے کوئی بھی  آلہ استعمال کیا جائے۔

اہلِ علم و اہلِ فتوی کی بڑی تعداد کی تحقیق کے مطابق تصویر کے جواز وعدمِ جواز کے بارےمیں ڈیجیٹل اور غیر ڈیجیٹل کی تقسیم شرعی نقطہ نظر سے ناقابلِ اعتبار ہے۔اور  ہمارا فتوی بھی وہی ہے جو پہلے تھا کہ تصویر سازی کا عمل شرعاً ناجائز ہے خواہ وہ  ڈیجیٹل ہو یا غیر ڈیجیٹل،  کسی فرد کے عمل  کی وجہ سے شریعت کا حکم تبدیل نہیں ہوتا، لہٰذا عالم کی تصویر یا ویڈیو اَپ لوڈ کرکے کمانا بھی ہمارے فتوے کے مطابق جائز نہیں ہے۔ باقی ہر شخص اپنے عمل کا خود ذمہ دار ہے، اس حوالے سے اسی سے معلوم کرلیا جائے۔

تصویر کے مسئلے کی تفصیل کے لیے مفتی شعیب عالم صاحب کی کتاب  ”ڈیجیٹل تصویر (فنی وشرعی تجزیہ) “ کا مطالعہ کیجیے۔

نیز درج لنک پر جامعہ کے ترجمان رسالہ ’’ماہنامہ بینات‘‘  کے تصویر سے متعلق مضمون کا مطالعہ کیجیے:

ڈیجیٹل تصویر یا اباحیتِ عامہ

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010200510

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں