بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

اسقاطِ حمل کی مدت


سوال

اسقاطِ  حمل کی مدت کیا ہے؟ نیز کن وجوہات کی بنا  پر جائز ہے ؟

جواب

اگر حمل چار ماہ کا ہو جائے تو اسے ضائع کرنا کسی صورت جائز نہیں، اگر حمل چار ماہ سے کم کا ہو اور دین دار اورماہر ڈاکٹر یہ کہہ دے کہ بچہ کی پیدائش کی وجہ سے ماں کی جان کو یقینی یا غالب گمان کے مطابق خطرہ ہے یا ماں کی صحت حمل کاتحمل نہیں کرسکتی تو اسقاط حمل کی گنجائش ہے۔ اگر معاشی خوف کی وجہ سے ہو تو اسقاط ناجائز ہے، اگر چہ حمل چار ماہ سے کم مدت کا ہو۔ اور شدید ضرورت نہ ہو تو چار ماہ سے کم مدت کا حمل بھی ساقط کرنا درست نہیں ہے، البتہ مانعِ حمل عارضی تدابیر اختیار کرنے کی اجازت ہے۔فقط واللہ اعلم

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنکس پر جامعہ کے فتاویٰ ملاحظہ کیجیے:

اسقاطِ حمل کی گنجائش

مانعِ حمل تدبیر کرنا اور چار ماہ سے پہلے اسقاطِ حمل کا حکم

چار ماہ سے پہلے عذر کی وجہ سے اسقاط حمل کیوں جائز ہے؟

اسقاطِ حمل کی تدبیر کرنا


فتوی نمبر : 144107200076

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں