بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زمل نام رکھنا درست نہیں


سوال

زمل نام رکھنا کیسا ہے لڑکی کا؟

جواب

عربی لغات میں زمل کے مختلف تلفظ کے ساتھ مختلف معانی ملے ہیں تاہم اچھے اور مناسب معنی نہیں ہیں۔

"زَمَل"(ز اور م کے زبر کے ساتھ )کے معنی ہیں : (1) ایک جانب کو جھکے ہوئے دوڑنا۔ (2) لنگڑاتے ہوئے چلنا۔

"زَمِل"(ز کے زبر اور م کی زیر کے ساتھ) کے معنی ہیں :(1) کم زور۔ (2) بزدل ۔

"زُمَل" (زا پر پیش اور میم پر زبر) ہو تو اس کا معنی ہیں: (1)بزدل۔ (2)  کمینہ۔

"زِمْل"(ز کی زیر ،اور م کے سکون کے ساتھ)کے معنی ہیں : (1)جانور پر پیچھے سوار ہونے والا۔ (2) پیچھے سوار ہونے والا،ردیف۔ (3) بوجھ۔ (4) کمزور، سست و کاہل۔

"زِمَل"  (ز کی زیر اور م کے زبر کے ساتھ )یہ عربی لغت میں مستعمل نہیں ہے۔

القاموس الوحید میں ہے:

"زَمَلَ - زَمْلاً و زَمَلَاناً: ایک پہلو پر زور دے کر دوڑنا، ایک اوپر اٹھا کر دوسرے پیر پر دوڑنا۔

الزّامِلُ: پھرتی کی وجہ سے لنگڑا کر چلنے والا چوپایہ۔

الزّامِلَةُ: مؤنث.... الزَّامِل بار برداری کا اونٹ وغیرہ۔ ج:زَوَامِل۔

الزِّمْلُ: بوجھ۔

زِمْلٌ: پیچھے سوار ہونے والا (ردیف)۔ کمزور اور تھڑدلا۔ سست و کاہل۔ ج: اَزْمَالٌ۔

الزُّمَلُ: بزدل و کمینہ۔"

(بابُ الزَاء، ز ___ م، ص:587، ط:ادارہ اسلامیات)

القاموس المحيط  میں ہے:

" زَمَلَ يَزْمِلُ ويَزْمُلُ زِمالاً : عَدا مُعْتَمِداً في أحَدِ شِقَّيْهِ رافِعاً جَنْبَهُ الآخَرَ . وككِتابٍ : ظَلْعٌ في البَعيرِ ولِفافةُ الراوِيَةِ ج : ككُتُبٍ وأشْرِبَةٍ . والزامِلُ : من يَزْمُلُ غيرَهُ أي : يَتْبَعُه و من الدوابِّ : الذي كأَنه يَظْلَعُ من نَشاطِهِ زَمَلَ زَمْلاً وزَمالاً وزَمَلاً وزَمَلاناً، وفَرَسُ مُعَاوِيَةَ بنِ مِرْدَاسٍ السُّلَمِيِّ....

والزّامِلَةُ: التي يُحْمَلُ عليها من الإِبِلِ وغيرِها ...والزِّمْلُ بالكسرِ : الحِمْلُ . وما في جُوالِقِكَ إلاَّ زِمْلٌ : إذا كانَ نِصْفَ الجُوالِقِ ".

(‌‌باب اللام، ‌‌فصل الزاي، ص:1010-1011، ط:مؤسسة الرسالة للطباعة، بيروت۔لبنان)

تاج العروس میں ہے:

"‌والزِّمْلُ، ‌بالكسرِ: الْحِمْلُ،) وَفِي حديثِ أبي الدَّرْداءِ: إنْ فَقَدْتُمُونِي لَتَفْقِدُنَّ زِمْلاً عَظِيماً، يُرِيدُ حِمْلاً عَظِيماً مِنَ العِلْمِ، قالَ الخَطَّابِيُّ: وَرَوَاهُ بَعْضُهُم: زُمَّل، بالضَّمِّ والتّشْدِيدِ، وَهُوَ خَطَأٌ. ويُقالُ: مَا فِي جُوالِقِكَ إِلَاّ زِمْلٌ، إِذا كَانَ نِصْفَ الْجُوالِقِ، عَن أبي عَمْرٍ و. وممّا يُسْتَدْرَكُ عَلَيْهِ: المُزَامَلَةُ: الْمُعادَلَةُ على البَعِيرِ".

"والزُّمَّلُ كسُكَّرٍ وصُرَدٍ وعِدْلٍ وزُبَيْرٍ وقُبَّيْطٍ ورُمَّانٍ وكَتِفٍ وقِسْيَبٍ بكَسْرٍ فسُكُونٍ ففَتْحٍ فتَشْدِيدٍ وجُهَيْنَةَ وقُبَّيْطَةٍ ورُمَّانَةٍ فهي لُغاتٌ إِحْدَى عَشَرَةَ كُلُّ ذلك بمَعْنى الْجَبَان الضَّعِيف الرَّذْلِ الذي يَتَزَمَّلُ في بَيْتِه لا يَنْهَضُ لِلْغَزْوِ ويَكْسلُ عن مساماة الأُمُورِ الجِسَام". 

(‌‌فصل الزاي مع اللام، ز_م _ ل، ج:29، ص:135-138-141، ط:دار الهداية، ودار إحياء التراث وغيرهما)

کسی بھی معنی  و تلفظ کے اعتبار سے ’’زمل‘‘ نام  رکھنا درست نہیں، اگر یہ نام رکھ لیا ہو تو اس کو تبدیل کرلیجیے۔

ناموں کے سلسلے میں بہتر یہ ہے کہ لڑکے کے لیے انبیاء کرام علیہم السلام یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور لڑکی کے لیے صحابیات رضی اللہ عنہن کے ناموں میں سے کوئی نام رکھا جائے، یا اچھا بامعنی   نام رکھا جائے۔

’’روایات میں آتا ہے کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ برے ناموں کو اچھے ناموں سے تبدیل فرمادیا کرتے تھے۔

اسی طرح حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا  فرماتی ہیں: آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  قبیح ناموں کو تبدیل فرما دیاکرتے تھے۔

حضرت ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: روزِ قیامت تم اپنے ناموں اور اپنے آباء کے ناموں سے پکارے جاؤگے، لہٰذا اپنے نام اچھے رکھا کرو۔‘‘

ترمذی شریف میں ہے:

"عن ‌هشام بن عروة، عن ‌أبيه ، عن ‌عائشة، أن النبي صلى الله عليه وسلم «كان ‌يغير ‌الاسم القبيح»".

(ابواب الأداب، باب ماجاء فی تغییر الأسماء، ج:4، ص:523، رقم الحديث:2839، ط:دار الغرب الإسلامي - بيروت)

سنن ابو داود شریف میں ہے:

"عن داود بن عمرو، عن عبد الله بن أبي زكريا، عن أبي الدرداء، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إنكم تدعون يوم القيامة بأسمائكم، وأسماء آبائكم، ‌فأحسنوا ‌أسماءكم»".

(‌‌باب في تغيير الأسماء، كتاب الأدب، ج:4،ص:287، رقم الحدیث:4948، ط:المكتبة العصرية، صيدا - بيروت)

 السنن الکُبری للبیھقی میں ہے:

"عن أبي وهب الجشمي رضي الله عنه وكانت له صحبة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ‌سموا ‌بأسماء ‌الأنبياء، وأحب الأسماء إلى الله عبد الله وعبد الرحمن، وأصدقها حارث وهمام، وأقبحها حرب ومرة".

(‌‌‌‌‌‌كتاب الضحايا، جماع أبواب العقيقة، باب ما يستحب أن يسمى به، ج:9، ص:514، رقم الحدیث:19307، ط:دار الكتب العلمية، بيروت - لبنان)

ہمارے جامعہ کی ویب سائٹ پر اسلامی نام کے عنوان کے تحت اچھے بامعنی نام موجود ہیں،جنس اور حرف منتخب کرکے نام کا انتخاب کیا جاسکتا ہے، اس کا لنک درج ذیل ہے:

اسلامی نام

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"«وفي الفتاوى التسمية باسم لم يذكره الله تعالى في عباده ولا ذكره رسول الله صلى الله عليه وسلم و لا استعمله المسلمون تكلموا فيه والأولى أن لايفعل، كذا في المحيط".

(کتاب الکراهية، الباب الثانی و العشرون، ج:5، ص:362، ط:رشيديه)

فتاوی شامی میں ہے:

"و كان رسول الله صلى الله عليه و سلم يغير الاسم القبيح إلى الحسن جاءه رجل يسمى أصرم فسماه زرعة و جاءه آخر اسمه المضطجع فسماه المنبعث".

(كتاب الحظر والإباحة، ج:6، ص:418، ط:سعيد)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144505100995

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں