بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زرافہ ، سمندری بڑی مچھلی اور ہاتھی کا حکم


سوال

زرافہ  اور سمندری بڑی مچھلی جو چھوٹی  مچھلیوں کا شکار کرتی ہے اور ہاتھی حلال ہے یا حرام ؟

جواب

زرافہ حلال جانوروں میں سے ہے، شرعی طریقہ ذبح یا شکار کرنے  بعد اس کا کھانا حلال ہے۔

سمندری مخلوقات میں سے مچھلی کی ہرقسم احناف کے نزدیک حلال ہے۔لہذا اگر کوئی بڑی مچھلی ہووہ اگرچہ چھوٹی مچھلیوں کا شکارکرکے کھاتی ہو، ایسی مچھلی کا کھانا حلال ہوگا۔البتہ اگر کسی خاص قسم سے متعلق دریافت کرنا چاہتے تو اس کی وضاحت لکھ کر دوبارہ دریافت کرلیں۔

مزید تفصیل  کے  لیے درج ذیل لنک پر فتویٰ ملاحظہ کیجیے:

مگرا / شارک کھانے کا حکم

مگرا (shark) کھانے کا حکم

جمہور اہل علم کے ہاں ہاتھی حلال نہیں ہے،کیوں کہ حرام جانوروں کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اصول مقرر فرمایا ہے کہ وہ تمام تر جانور جن کے نوکیلے (کچلی والے) دانت ہوتے ہیں وہ حرام ہیں۔اور ہاتھی کی کچلیاں تو ہر ایک کو نظر آتی ہیں۔

الاشباہ والنطائر میں ہے :

’’(ومنها) مسألة الزرافة: مذهب الشافعي رحمه الله القائل بالإباحة "الحل في الكل ".

وأما مسألة الزرافة فالمختار عندهم حل أكلها. وقال السيوطي: ولم يذكرها أحد في المالكية، والحنفية وقواعدهم تقتضي حلها‘‘۔

(الأشباه والنظائر لابن نجيم، ص: 57،ط:دار الكتب العلمية)

أحکام القرآن  للجصاص  میں ہے :

’’ الأولیٰ: قوله تعالیٰ : ﴿ أُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ ﴾ هذا حکم بتحلیل صید البحر، وهو کل ما صید من حیتانه ...الثالثة : قال أبو حنیفة : ... لایؤکل شيء من حیوان البحر إلا السمك، وهو قول الثوری في روایة أبي إسحاق الفزاري عنه‘‘.

( 3/670) سورۃالمائدۃ آیت 96، ط :قدیمی ) 

فتاوی شامی میں ہے :

’’(ولا) يحل (حيوان مائي إلا السمك) الذي مات بآفة ولو متولداً في ماء نجس ولو طافيةً مجروحةً، وهبانية، (غير الطافي) على وجه الماء الذي مات حتف أنفه. (قوله: ولو متولداً في ماء نجس) فلا بأس بأكلها للحال؛ لحله بالنص‘‘.

(6/306۔307 کتاب الذبائح ط : سعید ) 

بدائع الصنائع میں ہے :

’’ أما الذي يعيش في البحر فجميع ما في البحر من الحيوان محرم الأكل إلا السمك خاصةً؛ فإنه يحل أكله إلا ما طفا منه، وهذا قول أصحابنا - رضي الله عنهم‘‘.

( 5/35 کتاب الذبائح والصیود ط :سعید)

البحرالرائق میں ہے :

’’ قال رحمه الله ( ولا يؤكل ذو ناب ولا مخلب من سبع وطير ) يعني لا يحل أكل ذي ناب من سباع البهائم وذي مخلب من سباع الطير لما روى ابن عباس رضى الله تعالى عنهما أن النبي صلى الله عليه وسلم نهى عن أكل ذي ناب ومخلب من سبع وطير  رواه مسلم والجماعة ... ويدخل فيه الفيل أيضا لأنه ذو ناب ولليربوع ( ( ( واليربوع ) ) ) وابن عرس من سباع الهوام والرخمة والبغاث لأنهما يأكلان الجيف ‘‘۔

(8/195،ط:دارالمعرفۃ بیروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402101906

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں