بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زکوٰۃ اور قربانی میں چاندی کے نصاب کو معیار بنانے کی وجہ


سوال

زکوٰۃ اور قربانی کے  احکامات میں اگر 7.5 تولہ سونا یا 52.5 تولہ چاندی دونوں کا حکم  ہے تو پھر ہم صرف چاندی ہی کے نصاب سے کیوں موازنہ کرتے ہیں،  سونے کے نصاب سے کیوں نہیں ؟

جواب

سونے کا نصاب ساڑھے سات تولہ اس وقت ہے جب کہ سونے کے ساتھ  کوئی اور   نصاب  (چاندی، رقم، مالِ تجارت وغیرہ ) موجود نہ ہو، لہٰذا اگر کسی کے پاس صرف  سونا موجود ہو اورنقد رقم، مالِ تجارت یا چاندی وغیرہ  کچھ بھی موجود نہ ہو تو اس پر  زکاۃ یا قربانی  اس وقت تک واجب نہیں ہوگی جب تک کہ اس کی مقدار ساڑھے سات تولہ  تک نہ پہنچ جائے، نیز وہ اس کی بنیادی ضرورت اور واجب الادا اخراجات سے زائد ہو۔

لیکن اگر سونے کے ساتھ  کوئی اور  نصاب  (نقدی یا مالِ تجارت یا چاندی یا قربانی کے باب میں ان کے علاوہ  ضرورت و استعمال  سے زائد سامان بھی ) موجود ہو، تو پھر صرف سونے کے نصاب کا اعتبار نہیں کیا جائے گا، بلکہ ایسی صورت میں چاندی کے نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی) کی قیمت کا اعتبار کیا جائے گا، لہٰذا اگر سونے اور دوسرے قابلِ زکاۃ وقربانی کے مال کو ملا کر مجموعی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر یا اس سے زیادہ ہوجائے تو اس پر زکاۃ واجب ہوگی۔

ایک سے زیادہ مال جمع ہونے کی صورت میں چاندی کے نصاب کا اعتبار اس لیے کیا گیا کہ زکاۃ اور قربانی   کے وجوب میں فقراء کی حاجت کو بنیادی اہمیت حاصل ہے، اور موجودہ دور میں چاندی کا نصاب کم ہے،  اس لیے اس کا اعتبار کرنے کی  صورت میں فقراء کا فائدہ زیادہ ہے۔فقط واللہ اعلم

تفصیل کے لیے درج ذیل لنک پر فتاویٰ ملاحظہ فرمائیں:

قربانی کے نصاب کا معیار سونا یا چاندی؟


فتوی نمبر : 144212200767

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں