بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

30 شوال 1445ھ 09 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

یوٹیوب پر چینل بناکر کمائی حاصل کرنے کا حکم


سوال

کیا فرماتے ہیں علماءِ کرام درجِ ذیل مسئلے کے بارے میں:

یوٹیوب کی کمائی کا کیا حکم ہے؟، اگر حلال نہیں ہے تو کچھ اہلِ علم کے بھی باقاعدہ چینلز ہےجن پر مختلف ایڈ لگتے ہیں، میں خود میڈیا پر ہوں اور اس پر مطمئن نہیں ہوں، کیوں کہ اس میں فحش مواد پر مشتمل ایڈ ہوتے ہیں، بات عورت سے شروع ہوتی ہے اور اسی پر ختم ہوتی ہے،اور سارا دن اس پر ڈرامے وغیرہ چلتے ہیں، آپ راه نمائی فرمائیں۔

جواب

یوٹیوب پر چینل بناکر ویڈیو اَپ لوڈ کرنے کی صورت میں اگر اس چینل کے فالوورز زیادہ ہوں تو یوٹیوب چینل ہولڈر کی اجازت سے اس میں اپنے مختلف کسٹمر کے اشتہار چلاتا ہے، اور اس کی ایڈور ٹائزمنٹ اور مارکیٹنگ کرنے پر ویڈو اَپ لوڈ کرنے والے کو بھی پیسے دیتا ہے۔ اس کا شرعی حکم یہ ہے کہ اگر چینل پر ویڈیو اَپ لوڈ کرنے والا:

1۔ جان د ار کی تصویر والی ویڈیو اپ لوڈ کرے، یا اس ویڈیو میں جان دار کی تصویر ہو۔

2۔ یا اس ویڈیو میں میوزک اور موسیقی ہو۔

3۔ یا اشتہار غیر شرعی ہو ۔

4۔ یا کسی بھی غیر شرعی شے کا اشتہار ہو۔

5۔ یا اس کے لیے کوئی غیر شرعی معاہدہ کرنا پڑتا ہو۔

تو اس کے ذریعے پیسے کمانا جائز نہیں ہے، نیز عام طور پر اگر ویڈیو میں مذکورہ خرابیاں نہ بھی ہوں تب بھی یوٹیوب کی طرف سے لگائے جانے والے اشتہار میں یہ خرابیاں پائی جاتی ہیں، اور ہماری معلومات کے مطابق یوٹیوب کو اگر ایڈ چلانے کی اجازت دی جائے تو اس کے بعد وہ ملکوں کے حساب سے مختلف ایڈ چلاتے ہیں، مثلاً اگر پاکستان میں اسی ویڈیو پر وہ کوئی اشتہار چلاتے ہیں، مغربی ممالک میں اس پر وہ کسی اور قسم کا اشتہار چلاتے ہیں، جس میں بسااوقات حرام اور ناجائز چیزوں کی تشہیر بھی کرتے ہیں، ان تمام مفاسد کے پیشِ نظر یوٹیوب پر ویڈیو اپ لوڈ کرکے پیسے کمانے کی شرعاً اجازت نہیں ہے۔

 صورتِ مسئولہ میں سائل نے خود بھی وضاحت کی ہے کہ چینل پر جو اشتہارات چلتے ہیں وہ مختلف قسم کی غیرشرعی مواد پر مشتمل ہوتے ہیں؛ لہٰذا غیرشرعی مواد  (تصاویر، موسیقی، نامحرم خواتین) پر مشتمل یوٹیوب چینل سے آمدن حاصل کرنا جائز نہیں ہے، باقی کچھ اہلِ علم کا یوٹیوب پر چینل بنانے اور اس سے کمائی حاصل کرنے سے حرام کام جائز نہیں ہوتا۔

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک ملاحظہ کیجیے:

یوٹیوب پر چینل بنانا

فتاوی شامی میں ہے:

"صوت اللهو والغناء ينبت النفاق في القلب كما ينبت الماء النبات. قلت: وفي البزازية استماع صوت الملاهي كضرب قصب ونحوه حرام لقوله عليه الصلاة والسلام: «استماع الملاهي معصية و الجلوس عليها فسق و التلذذ بها كفر» أي بالنعمة فصرف الجوارح إلى غير ما خلق؛ لأجله كفر بالنعمة لا شكر فالواجب كل الواجب أن يجتنب كي لايسمع لما روي: «أنه عليه الصلاة و السلام أدخل أصبعه في أذنه عند سماعه.»"

(كتاب الحظر و الإباحة، ج:6، ص:349، ط:ايج ايم سعيد) 

فتاوی شامی میں ہے:

"و ظاهر كلام النووي في شرح مسلم: الإجماع على تحريم تصوير الحيوان، و قال: و سواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته حرام بكل حال؛ لأنّ فيه مضاهاة لخلق الله تعالى، و سواء كان في ثوب أو بساط أو درهم و إناء و حائط و غيرها اهـ فينبغي أن يكون حرامًا لا مكروهًا إن ثبت الإجماع أو قطعية الدليل بتواتره اهـ كلام البحر ملخصًا."

(كتاب الصلوة، باب مايفسد الصلوة ومايكره، ج:1، ص:647، ط: ايج ايم سعيد) 

الجامع لاحکام القرآن (تفسير القرطبي) میں ہے:

" {وَلَاتَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى الْحُكَّامِ لِتَأْكُلُوا فَرِيقًا مِنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ} (188) 

الْخِطَابُ بِهَذِهِ الْآيَةِ يَتَضَمَّنُ جَمِيعَ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالْمَعْنَى: لَايَأْكُلُ بَعْضكُمْ مَالَ بَعْضٍ بِغَيْرِ حَقٍّ. فَيَدْخُلُ فِي هَذَا: الْقِمَارُ وَ الْخِدَاعُ وَ الْغُصُوبُ وَ جَحْدُ الْحُقُوقِ، وَ مَا لَاتَطِيبُ بِهِ نَفْسُ مَالِكِهِ، أَوْ حَرَّمَتْهُ الشَّرِيعَةُ وَ إِنْ طَابَتْ به نفس مالكه، كهر الْبَغِيِّ وَ حُلْوَانِ الْكَاهِنِ وَ أَثْمَانِ الْخُمُورِ وَ الْخَنَازِيرِ وَ غَيْرِ ذَلِكَ ... وَ أُضِيفَتِ الْأَمْوَالُ إِلَى ضَمِيرِ المنتهى لَمَّا كَانَ كُلُّ وَاحِدٌ مِنْهُمَا مَنْهِيًّا وَ مَنْهِيًّا عنه، كما قال: "تَقْتُلُونَ أَنْفُسَكُمْ". وَ قَالَ قَوْمٌ: الْمُرَادُ بِالْآيَةِ"وَلاتَأْكُلُوا أَمْوالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْباطِلِ" أَيْ فِي الْمَلَاهِي وَالْقِيَانُ وَالشُّرْبُ وَالْبَطَالَةُ، فَيَجِيءُ عَلَى هَذَا إِضَافَةُ الْمَالِ إِلَى ضَمِيرِ الْمَالِكِينَ. الثَّالِثَةُ- مَنْ أَخَذَ مَالَ غَيْرِهِ لَا عَلَى وَجْهِ إِذْنِ الشَّرْعِ فَقَدْ أكله بالباطل، ومن الأكل بالباطل أن يقتضى الْقَاضِي لَكَ وَأَنْتَ تَعْلَمُ أَنَّكَ مُبْطِلٌ، فَالْحَرَامُ لَا يَصِيرُ حَلَالًا بِقَضَاءِ الْقَاضِي، لِأَنَّهُ إِنَّمَا يَقْضِي بِالظَّاهِرِ. وَهَذَا إِجْمَاعٌ فِي الْأَمْوَالِ."

(سورة البقرة، رقم الآية:188، ج:2، ص:338، ط:دارالكتب المصرية)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144307100292

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں