آج کل یو ٹیوب پر کھانے بنانے کے بہت سے چینل چل رہے ہیں اور ان سے آمدنی بھی حاصل کی جا رہی ہے، میرا سوال یہ ہے کہ عورتیں بھی اپنا جسم اور چہرہ دکھائے بغیر کیا اپنا چینل چلا سکتی ہیں؟ ویڈیو میں صرف عورت کے ہاتھ نظر آتے ہیں اور آواز بھی عورت کی ہی ہوتی ہے، کیا شریعت اس کی اِجازت دیتی ہی کسی بھی طرح کے حالات میں؟
عورت کی آواز اگرچہ راجح قول کے مطابق ستر نہیں، لیکن عورت کے لیے بوقتِ ضرورت نامحرم سے بات کرنے میں یہ حکم ہے کہ وہ نرم لہجے میں بات نہ کرے ، بلکہ کڑک آواز میں اپنی ضرورت کی بات کرے، تاکہ جن مردوں کے دل میں مرض ہے وہ کسی بھی قسم کی طمع نہ رکھ سکیں، اور فتنہ کا سدباب ہوسکے، یوٹیوب پر چینل بنانا کوئی ایسی ضرورت بھی نہیں ہے کہ جس کے لیے عورت کا اپنی آواز مرد تک پہنچانا ضروری ہو، نیز اگر یوٹیوب پر چینل بنانے کا مقصد آمدنی ہو تو اس میں شرعًا بہت سے مفاسد ہیں، اس کی تفصیل یہ ہے کہ :یوٹیوب پر چینل بناکر ویڈیو اَپ لوڈ کرنے کی صورت میں اگر اس چینل کے فالوورز زیادہ ہوں تو یوٹیوب چینل ہولڈر کی اجازت سے اس میں اپنے مختلف کسٹمر کے اشتہار چلاتا ہے، اور اس کی ایڈورٹائزمنٹ اور مارکیٹنگ کرنے پر ویڈیو اَپ لوڈ کرنے والے کو بھی پیسے دیتا ہے۔ اس کا شرعی حکم یہ ہے کہ اگر چینل پر ویڈیو اَپ لوڈ کرنے والا:
تو اس کے ذریعے پیسے کمانا جائز نہیں ہے۔
عام طور پر اگر چینل بنانے والے کی اَپ لوڈ کردہ ویڈیو میں مذکورہ خرابیاں نہ بھی ہوں تب بھی یوٹیوب کی طرف سے لگائے جانے والے اشتہار میں یہ خرابیاں پائی جاتی ہیں، اور ہماری معلومات کے مطابق یوٹیوب پر چینل بناتے وقت ہی معاہدہ کیا جاتاہے کہ مخصوص مدت میں چینل کے سبسکرائبرز اور ویورز مخصوص تعداد تک پہنچیں گے تو یوٹیوب انتظامیہ اس چینل پر مختلف لوگوں کے اشتہارات چلانے کی مجاز ہوگی، اور چینل بنانے والا اس معاہدے کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوتاہے، الا یہ کہ اشتہارات بند کرنے کے لیے وہ باقاعدہ فیس ادا کرے اور چینل کو کمرشل بنیاد پر استعمال نہ کرے، اور ان اشتہارات کا انتخاب کسی بھی یوزر کی سرچنگ بیس یا لوکیشن یا مختلف لوگوں کے اعتبار سے مختلف ہوسکتاہے، چینل بناتے وقت چوں کہ اس معاہدے پر رضامندی پائی جاتی ہے، لہٰذا یوٹیوب پر چینل بنانا ہی درست نہیں ہے، اور چینل بناتے وقت یوٹیوب انتظامیہ کو جب ایڈ چلانے کی اجازت دی جائے تو اس کے بعد وہ مختلف ڈیوائسز کی سرچنگ بیس یا لوکیشن یا ملکوں کے حساب سے مختلف ایڈ چلاتے ہیں، مثلاً اگر پاکستان میں اسی ویڈیو پر وہ کوئی اشتہار چلاتے ہیں، مغربی ممالک میں اس پر وہ کسی اور قسم کا اشتہار چلاتے ہیں، اور پاکستان میں ہی ایک شخص کی ڈیوائس پر الگ اشتہار چلتاہے تو دوسرے شخص کی ڈیوائس پر دوسری نوعیت کا اشتہار چل سکتاہے، جس میں بسااوقات حرام اور ناجائز چیزوں کی تشہیر بھی کرتے ہیں، ان تمام مفاسد کے پیشِ نظر یوٹیوب پر ویڈیو اپ لوڈ کرکے پیسے کمانے کی شرعًا اجازت نہیں ہے۔
علاوہ ازیں یوٹیوب چینل کے ذریعے اگر آمدن مقصود ہو تو اس سلسلے میں انتظامیہ سے اجارے کا جو معاہدہ کیا جاتاہے وہ بھی شرعی تقاضے پورے نہ ہونے (مثلًا: اجرت کی جہالت) کی وجہ سے جائز نہیں ہوتا۔
تفصیل اس کی یہ ہے کہ یوٹیوب چینل بنا کر اس پر ویڈیوز اَپ لوڈ کر کے کمائی کی صورتیں مندرجہ ذیل ہوتی ہیں:
۱) ایڈورٹائزمنٹ کے ذریعہ کمائی: یوٹیوب پر جب کوئی چینل کھولتا ہے اور اس پر مواد ڈالتا ہے تو چینل کھولنے والا گوگل کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ گوگل مختلف قسم کے ایڈز اس کے چینل پر چلائے، گوگل ان ایڈز سے جو کماتا ہے 45 فیصد خود رکھتا ہے اور 55 فیصد یوٹیوب چینل والے کو دیتا ہے۔گوگل اشتہارات دینے والوں سے لوگوں کے ہر کلک کے حساب سے رقم وصول کرتا ہے۔
۲) یوٹیوب کے جو پریمیم کسٹمرز ہیں یوٹیوب ان سے سبسکرپشن فیس لیتا ہے اور جب وہ لوگ کسی چینل کو دیکھتے ہیں تو یوٹیوب اس چینل والے کو اس سبسکرپشن فیس میں سے کچھ دیتا ہے۔
اب ہر ایک کا حکم ترتیب وار ذکر ہے:
۱) ایڈ کے ذریعہ کمائی کی صورت شرعًا اجارہ کا معاملہ ہے جو گوگل اور یوٹیوب چینل کے مالک کے درمیان ہوتا ہے۔ گوگل چینل کے مالک کو اس کے چینل کے استعمال پر (ایڈ نشر کرنے کی صورت میں) اجرت دیتا ہے۔
یہ اجرت مندرجہ ذیل خرابیوں کی وجہ سے حلال نہیں ہے:
الف) گوگل کو اختیار ہوتا ہے کہ وہ کسی قسم كا بھی ایڈ چلائے، ان میںجائز ،ناجائز ہرقسم کی چیزوں کی تشہیر کی جاتی ہے ،نیز اکثر ایڈ ذی روح کی تصاویر پر مبنی ہوتی ہیں اور سائل کو انہیں ایڈز کی اجرت ملتی ہے، لہذا یہ اجرت کا معاہدہ تعاون على الاثم ہونے کی وجہ سے ناجائز ہوگا اور کمائی بھی حلال نہیں ہوگی۔
ب) اجرت مجہول ہوتی ہے؛ کیوں کہ گوگل ایک متعین اجرت نہیں طے کرتا، بلکہ اپنی کمائی کا 55 فیصد اجرت طے کرتا ہے اور گوگل کی کل اجرت مجہول ہوتی ہے تو اس کا 55فیصد بھی مجہول ہوتا ہے۔ چینل کے استعمال کی اجرت کا تعلق وقت کے ساتھ ہونا چاہیے یعنی جتنی دیر اس پر ایڈ چلے اس حساب سے اجرت ملے؛ لہذا اگر چینل پر چلنے والے ایڈز اگر سب کے سب شرعی دائرہ کے اندر بھی ہوں تب بھی یہ معاملہ شرعًا اجارہ فاسد ہوگا اور اجرت حلال نہیں ہوگی۔
۲) یوٹیوب پریمیم میمبر سے بعض سہولیات (جو ویڈیوز دیکھنے اور ڈاون لوڈ کرنے سے متعلق ہوتی ہیں)کے بدلہ سبسکرپشن فیس (اجرت) لیتا ہے اور جب یہ پریمیم میمبر کسی چینل کو دیکھتا ہے تو یوٹیوب اس پر چینل والے کو رقم دیتا ہے۔یہ رقم جو یوٹیوب یوٹیوب چینل والے کو دیتا ہےچینل استعمال کرنے کی اجرت ہے ۔یہ اجرت بھی مندرجہ ذیل وجوہ سے شرعًا جائز نہیں ہے:
الف) چینل پر موجود ویڈیوز اگر جاندار کی تصاویر پر مشتمل ہیں تو یہ "اجرت علی المعاصی" ہونے کی وجہ سے حرام ہوگی۔
ب)اگر ویڈیو شرعی دائرہ کے مطابق ہو تب بھی اجرت مجہول ہونے کی وجہ سے ناجائز اور حرام ہوگی؛ کیوں کہ چینل کے استعمال کی اجرت وقت کے ساتھ متعین ہونی چاہیے کہ اتنے وقت کی اتنی اجرت ہے یا پھر مکمل مہینہ یا سال کی اتنی اجرت ہے جب کہ مذکورہ صورت میں ہماری معلومات کے مطابق اس طرح چینل والے کی اجرت متعین نہیں ہوتی۔
الفتاوى الهندية میں ہے:
"و منها أن يكون مقدور الاستيفاء - حقيقة أو شرعًا فلايجوز استئجار الآبق و لا الاستئجار على المعاصي؛ لأنه استئجار على منفعة غير مقدورة الاستيفاء شرعا.... ومنها أن تكون المنفعة مقصودة معتادًا استيفاؤها بعقد الإجارة و لايجري بها التعامل بين الناس فلايجوز استئجار الأشجار لتجفيف الثياب عليها. .... ومنها أن تكون الأجرة معلومةً."
(کتاب الاجارۃ ج نمرب ۴ ص نمبر ۴۱۱،دار الفکر)
أحكام القرآن للجصاص میں ہے:
"وقوله تعالى: وتعاونوا على البر والتقوى يقتضي ظاهره إيجاب التعاون على كل ما كان تعالى لأن البر هو طاعات الله وقوله تعالى:ولا تعاونوا على الإثم والعدواننهي عن معاونة غيرنا على معاصي الله تعالى."
(سورہ مائدہ ج نمبر ۳ ص نمبر ۲۹۶،دار احیاء التراث)
فتاوی شامی میں ہے:
"قال ابن مسعود: صوت اللهو و الغناء ينبت النفاق في القلب كما ينبت الماء النبات. قلت: و في البزازية: إستماع صوت الملاهي كضرب قصب و نحوه حرام ؛لقوله عليه الصلاة و السلام: استماع الملاهي معصية، و الجلوس عليها فسق، و التلذذ بها كفر؛ أي بالنعمة".
( ٦/ ٣٤٨ - ٣٤٩، ط: سعيد)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144210200878
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن