بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

یوٹیوب چینل پر ایڈ سے کمائی کا حکم


سوال

یوٹیوب چینل پر ایڈ سے کمائی کا کیا حکم ہے؟

جواب

یوٹیوب چینل  پر چلنے والے ایڈ(اشتہارات)سےحاصل ہونے والا منافع  ناجائز اور حرام ہے،کیوں کہ  یوٹیوب انتظامیہ کی جانب سے یوٹیوب چینل بنانے والے کو ایڈ (اشتہارات ) بندکرنے  کا تو اختیار دیا جاتا ہے، لیکن اس صورت میں کمائی نہیں ہوسکتی ہے، نیز اشتہارات بند کروانے کی فیس ادا کرنی پڑتی ہے، اگر یوٹیوب کے ذریعے آمدن  مقصود ہو تو اس پر اشتہارات کھلوانے پڑتے ہیں، اور  اشتہارات چلانے کے بعدان میں دکھائے جانے والے مناظر اور ان مناظرکے ذریعہ کی جانے والی کسی بھی قسم کی تشہیر میں یوٹیوب انتظامیہ کی جانب سے چینل والے کو یہ اختیار ہرگز حاصل نہیں ہوتا کہ وہ ان کی جانچ پڑتال کرکے شرعی دائرہ کار میں لاسکیں،کیوں کہ  یوٹیوب  پر چینل بناتے وقت ہی معاہدہ کیا جاتاہے کہ  مخصوص مدت میں چینل کے سبسکرائبرز اور  ویورز مخصوص تعداد تک پہنچیں گے تو یوٹیوب انتظامیہ اس چینل پر مختلف لوگوں کے اشتہارات چلانے کی مجاز ہوگی، اور چینل بنانے والا  چینل بناتے وقت اس معاہدے کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوتاہے، الا یہ کہ اشتہارات بند کرنے کے لیے وہ باقاعدہ فیس ادا کرے اور چینل کو کمرشل بنیاد پر استعمال نہ کرے،لہذا چینل بناتے وقت یوٹیوب انتظامیہ کو جب ایڈ(اشتہارات) چلانے کی اجازت دی جائے، تو اس کے بعد وہ  مختلف ڈیوائسز کی سرچنگ بیس (روز مرہ کا معیارِتلاش وجستجو) یا لوکیشن یا ملکوں کے حساب سے مختلف اشتہارات  چلاتے ہیں، مثلاً اگر  پاکستان میں اسی ویڈیو پر وہ کوئی اشتہار چلاتے ہیں، مغربی ممالک میں اس پر وہ کسی اور قسم کا اشتہار چلاتے ہیں،  اور پاکستان میں ہی ایک شخص کی ڈیوائس پر الگ اشتہار چلتاہے تو دوسرے شخص کی ڈیوائس پر دوسری نوعیت کا اشتہار چل سکتاہے، ان اشتہارات میں اکثر وبیشتر جان دار کی تصویر،میوزک اور موسیقی، حرام اور  ناجائز چیزوں کی تشہیر کی جاتی ہے،لہذا ان تمام مفاسد کے پیشِ نظریوٹیوب پر اشتہارات سے ہونے والی کمائی معاصی اور گناہ کے کاموں میں معاونت کی اجرت اور صلہ کہلاتا ہے،جوکہ ناجائز اور حرام ہے۔

نیز یوٹیوب پر آمدن کے لیے اجارے کا جو معاملہ کیا جاتا ہے، وہ بھی شرعی اعتبار سے درست نہیں ہوتا، اس وجہ سے بھی یوٹیوب کے ذریعے آمدن حاصل کرنا جائز نہیں ہے۔

اس حوالہ سےمزید تفصیل کے لیے ویب سائٹ پر موجود درج ذیل فتاوی ملاحظہ ہوں:

اشتہارات کے ذریعہ پیسہ کمانے کا حکم

أحكام القرآن للجصاصؒ  میں ہے:

"وقوله تعالى:وتعاونوا على البر والتقوىيقتضي ظاهره إيجاب التعاون على كل ما كان تعالى لأن البر هو طاعات الله وقوله تعالىولا تعاونوا على الإثم والعدواننهي عن معاونة غيرنا على معاصي الله تعالى."

(سورة المائدة، ج:3، ص:296، ط:داراحياء التراث)

المحیط للبرہانی میں ہے:

"‌الإعانة ‌على ‌المعاصي والفجور والحث عليها من جملة الكبائر يوجب سقوط العدالة."

(كتاب الشهادات، ج:8، ص:312، ط:دارالكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"قال ابن مسعود: صوت اللهو والغناء ينبت النفاق في القلب كما ينبت الماء النبات. قلت: وفي البزازية استماع صوت الملاهي كضرب قصب ونحوه حرام لقوله عليه الصلاة والسلام: «استماع الملاهي معصية والجلوس عليها فسق والتلذذ بها كفر» أي بالنعمة فصرف الجوارح إلى غير ما خلق لأجله كفر بالنعمة لا شكر فالواجب كل الواجب أن يجتنب كي لايسمع لما روي «أنه عليه الصلاة والسلام أدخل أصبعه في أذنه عند سماعه»."

(كتاب الحضر والاباحة، ج:6، ص:348/349،ط:سعيد)

وفيه ايضا:

"وظاهر كلام النووي في شرح مسلم الإجماع على ‌تحريم ‌تصوير الحيوان، وقال: وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته حرام بكل حال لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى، وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم وإناء وحائط وغيرها اهـ فينبغي أن يكون حراما لا مكروها إن ثبت الإجماع أو قطعية الدليل بتواتره اهـ كلام البحر ملخصا."

(كتاب الصلاة، باب مايفسد الصلاة ومايكره فيها، ج:1، ص:647، ط: سعيد)

بدائع الصنائع میں ہے:

"الاستئجار ‌على ‌المعاصي أنه لا يصح لأنه استئجار على منفعة غير مقدورة الاستيفاء شرعا كاستئجار الإنسان للعب واللهو، وكاستئجار المغنية، والنائحة للغناء، والنوح."

(كتاب الاجارة، فصل في انواع شرائط ركن الاجارة، ج:4، ص:189، ط:دارالكتب العلمية)

النتف فی الفتاوی میں ہے:

"ولا ‌أجرة ‌على ‌المعاصي لا المسماة ولا المثل."

(كتاب الاجارة، ج:2، ص:574، ط؛دار الفرقان عمان)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144505100988

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں