بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

اشتہارات کے ذریعہ پیسہ کمانے کا حکم


سوال

اشتہارات کے ذریعے پیسے کمانا سود ہے یا نہیں؟

جواب

اشتہارات کے ذریعہ پیسہ کمانے سے آپ کی کیا مراد ہے؟ یہ بات واضح نہیں ہے، اگر آپ کی مراد یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی ویب سائٹ بنا کر اس پر مختلف کمپنیوں کے اشتہارات چلا کر ان کمپنیوں سے پیسے وصول کرتا ہے تو اس کا حکم یہ ہے کہ اگر  اشتہارات میں حرام چیزوں کی تشہیر  نہ ہونے کے ساتھ ساتھ میوزک اور جان دار  کی تصاویر بھی نہ ہوں تو  ایسے اشتہارات چلانا اور ان کے ذریعہ پیسہ کمانا جائز ہو گا، بشرطیکہ اشتہارات چلانے والی کمپنی سے کیے گئے معاہدے میں کوئی اور شرعی و فقہی سقم نہ ہو۔ لیکن اگر   اشتہارات میوزک (موسیقی)، جان دار کی تصاویر یا کسی اور ناجائز و حرام بات پر مشتمل  ہوں تو چوں کہ ان چیزوں کے بنانے کی طرح ان کی ترویج اور تشہیر بھی شرعاً نا جائز ہے؛ اس لیے ایسے اشتہارات اپنی ویب سائٹ پر لگانا گناہ کے کام میں معاونت ہو گا، اور اس سے پیسہ کمانا نا جائز  ہو گا۔

 ہماری معلومات کے مطابق اگر  ایڈ چلانے والی کمپنیوں کو اپنی ویب سائٹ وغیرہ پر ایڈ چلانے کی اجازت دی جائے تو اس کے بعد وہ ملکوں کے حساب سے، بلکہ صارفین کے ذوق کے حساب سے مختلف ایڈ چلاتے ہیں، مثلاً اگر  پاکستان میں کوئی اشتہار چلاتے ہیں تو  مغربی ممالک میں اس پر وہ کسی اور قسم کا اشتہار چلاتے ہیں، یوزرز کی طلب اور ترجیحات کو سامنے رکھ کر وہ اشتہارات کا انتخاب کرتے ہیں، جس  میں بسا اوقات ویب سائٹ چلانے والے کے نہ چاہتے ہوئے بھی حرام اور ناجائز چیزوں کی تشہیر ہوجاتی ہے؛ لہٰذا اس طریقے سے کمانے سے اجتناب ہی کرنا چاہیے۔

اور اگر کاغذ پر پرنٹ کرکے یا پرنٹ میڈیا کے ذریعے اشتہارات سے کمائی کے حوالے سے سوال ہے تو اس میں بھی مذکورہ شرط ضروری ہے کہ وہ اشتہار شرعاً کسی ممنوعہ بات پر مشتمل نہ ہو، معاہدہ بھی جائز ہو۔

اور اگر آپ کی مراد اشتہار پر کلک کر کے پیسہ کمانے کا حکم پوچھنا ہے تو اس کا حکم یہ ہے کہ ایڈ (اشتہار) پر کلک کر کے آن لائن پیسے کمانے کا جو طریقہ آج کل رائج ہے وہ درج ذیل وجوہات کی بنا پر ناجائز ہے:

1- اس میں ایسے لوگ  اشتہارات کو دیکھتے ہیں  جن کایہ چیزیں لینے کا کوئی ارادہ ہی نہیں، بائع کو ایسے دیکھنے والوں کی تعداد میں اضافہ دکھانا جو کہ کسی طرح بھی خریدار نہیں، یہ بیچنے والے کے ساتھ  ایک قسم کا دھوکا ہے۔

2-  جان دار کی تصویر  کسی بھی طرح کی ہو اس کا دیکھنا جائز نہیں، لہذا اس پر جو اجرت  لی جائے گی وہ بھی جائز نہ ہوگی۔

3- ان اشتہارات میں  خواتین کی تصاویر بھی ہوتی ہیں جن کا دیکھنا بدنظری کی وجہ سے مستقل گناہ ہے۔

 4- اس معاملے میں جس طریق پر اس سائٹ کی پبلسٹی کی جاتی ہے جس میں پہلے اکاؤنٹ بنانے والے کوہر نئے اکاؤنٹ بنانے والے پر کمیشن ملتا رہتا ہے جب کہ  اس نے  نئے اکاؤنٹ بنوانے میں کوئی عمل نہیں کیا ، اس بلا عمل کمیشن لینے کا معاہدہ کرنا اور  اس پر اجرت لینا بھی جائز نہیں۔ شریعت میں بلا  محنت کی کمائی   کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے اور  اپنی محنت   کی کمائی   حاصل کرنے کی ترغیب ہے  اور اپنے ہاتھ کی کمائی کو افضل کمائی قراردیا ہے۔

حدیث شریف میں ہے:

شعب الإيمان (2/ 434):

" عَنْ سَعِيدِ بْنِ عُمَيْرٍ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ الْكَسْبِ أَطْيَبُ؟ قَالَ: " عَمَلُ الرَّجُلِ بِيَدِهِ، وَكُلُّ بَيْعٍ مَبْرُورٍ ".

ترجمہ:آپ ﷺ سے پوچھا گیا  کہ سب سے پاکیزہ کمائی کو ن سی ہے؟ تو آپ ﷺنے فرمایا کہ  آدمی کا  خود  اپنے ہاتھ سے محنت کرنا اور ہر جائز اور مقبول بیع۔

شرح المشكاة للطيبي الكاشف عن حقائق السنن (7/ 2112):

" قوله: ((مبرور)) أي مقبول في الشرع بأن لا يكون فاسدًا، أو عند الله بأن يكون مثابًا به".

 لہٰذا  حلال کمائی کے لیے کسی بھی  ایسے طریقے کو اختیار کرنا چاہیے  کہ جس میں اپنی محنت شامل ہو ایسی کمائی زیادہ بابرکت ہوتی ہے۔    

شامی(6/ 63):

"مطلب في أجرة الدلال، قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم.

وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار ، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسداً؛ لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام".

الموسوعة الفقهية الكويتية (1/ 290):

"الإجارة على المنافع المحرمة كالزنى والنوح والغناء والملاهي محرمة، وعقدها باطل لايستحق به أجرة. ولايجوز استئجار كاتب ليكتب له غناءً ونوحاً ؛ لأنه انتفاع بمحرم ... ولايجوز الاستئجار على حمل الخمر لمن يشربها، ولا على حمل الخنزير".

  فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144203200253

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں