بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

’’یا رسول اللہ‘‘ اور ’’یا علی‘‘ کے نعروں کا حکم


سوال

بعض اوقات ہم لوگ نعرہ لگاتے ہیں، نعرۂ تکبیر تو ہم اس کے جواب میں ’’اللہ اکبر‘‘ کہتے ہیں اور اس کے بعد نعرہ لگاتے ہیں نعرۂ رسالت تو اس کے جواب میں ’’یا رسول اللہ‘‘ کہنا اور نعرۂ حیدری کے جواب میں ’’یا علی‘‘ کہنا کیسا ہے؟

جواب

نعرۂ رسالت کے جواب میں ’’یا رسول اللّٰه‘‘ اور نعرۂ حیدری کے جواب میں ’’یاعلی‘‘ کہنے کا حکم ملاحظہ ہو:

  یارسول اللہ کہنے کا حکم: 

لفظ ’’یا رسول اللّٰه‘‘ لفظ   یاء (حرفِ نداء)  پر مشتمل ہے، اور لفظ  ’’یا‘‘ عربی زبان  میں کسی ایسے شخص کو پکارنے (آواز دینے)  کے  لیے استعمال ہوتا ہے جو اس مجلس میں حاضر ہو ، جب کہ  اہلِ  سنت والجماعت کا اجماعی عقیدہ ہے کہ حاضر و ناظر ذات صرف باری تعالی کی ذاتِ اقدس ہے، اس کے علاوہ کائنات میں کوئی بھی ایسی ذات نہیں جو ہر جگہ موجود ہو اور سب کچھ دیکھ اور سن رہی ہو، یہاں تک کہ نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم بھی حاضر و ناظر نہیں، اور  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے  میں حاضر و ناظر کا عقیدہ رکھنا بتصریحاتِ فقہاء کفر ہے، نیز اہلِ سنت والجماعت کا اجماعی عقیدہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر اطہر میں حیات ہیں، اور جو شخص روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر حاضر ہوکر سلام پیش کرتا ہے، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بنفسِ نفیس اسے سنتے اور جواب دیتے ہیں، جس کی وجہ سے روضہ رسول پر کھڑے ہو کر ندا و صیغہ خطاب کے ذریعہ سلام پیش کرنا جائز ہے، البتہ روضہ مبارک کے علاوہ دنیا کے کسی اور مقام سے درود پڑھا جائے تو اللہ رب العزت کی جانب سے مامور فرشتے پڑھے جانے والے درود کو پڑھنے والے کے نام کے ساتھ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔

مذکورہ بالا تمہید کے بعد  جواب یہ ہے کہ " یا رسول اللّٰه"  کہنا مطلقاً ممنوع نہیں ہے، بلکہ اس کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں، ان صورتوں کے اعتبار سے اس کا حکم بھی مختلف ہوگا:

1. غائبانہ اس عقیدے سے کہنا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی طرح ہرجگہ حاضر وناظر ہیں، ہماری ہرپکار اور فریاد کو سننے والے ہیں، حاجت روا ہیں؛ ناجائز اور شرک ہے۔

(مستفاد از فتاوی رحیمیہ، ج:2، ص:108، کتاب السنة والبدعة، ط: دار الاشاعت، پاکستان)

2. روضہٴ اطہر کے سامنے کھڑے ہوکر  ’’یا رسول اللّٰه‘‘  کہنا جائز ہے، اس لیے کہ لفظ ”یا“ کے ذریعے اسی کو مخاطب کیا جاتا ہے، جو سامنے حاضر ہو،اور روضہ اطہر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف حیات ہیں، بلکہ سلام کا جواب بھی دیتے ہیں، لہٰذا سامنے موجود ہونے کی صورت میں خطاب درست ہے۔

3. صحیح عقیدہ ( کہ  میرا پیغام یا سلام فرشتے پہنچا دیں گے) کے ساتھ دور سے ’’ یا رسول اللّٰه‘‘ کہنے کی اگرچہ اجازت ہے، اسی طرح فرط محبت میں شاعروں کے طرز پر محبوب سے خیالی کلام کے طور پر بھی ’’یا رسول اللّٰه‘‘ کہنا اگرچہ فی نفسہ جائز ہے، لیکن چوں کہ بہت سے عوام یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہر جگہ حاضر و ناظر ہیں اور  ہر جگہ سے ’’ یا رسول اللّٰه‘‘ کہنے والے کی آواز سن لیتے ہیں، اس لیے اس طرح کہنے سے لوگوں کو شبہ ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (اہلِ بدعت کی طرح) حاضر وناظر سمجھ کر اس طرح کہا جارہاہے، دل کا حال کسی کو معلوم نہیں، اس لیے روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ دیگر جگہوں میں ’’یا رسول اللّٰه‘‘ اور  اس جیسے جملے کہنے سے احتیاط کرنا چاہیے، اس لیے علمائے کرام غائبانہ اس لفظ  ’’یا‘‘ کے ذریعہ درود و سلام پڑھنے سے بھی منع کرتے ہیں ۔

’’یا علی‘‘ کہنے کا حکم:

صرف ’’ یا علی‘‘ یا’’ یا علی مدد ‘‘ کہنے کا حکم بیان کرنے سے پہلے بطور تمہید یہ جاننا ضروری ہے کہ اللہ کے علاوہ کسی سے مدد مانگنے کی دو صورتیں ہیں :

1. اس کے بارے میں  یہ عقیدہ رکھنا کہ اس میں ذاتی طور پر قدرت و طاقت ہے کہ وہ جو چاہے کر سکتا ہے، یہ شرک اور کفر ہے ،اسی طرح  کسی غیر خدا کے متعلق یہ عقیدہ رکھا جائے کہ اس کو خدا نے تمام اختیار دے دیے  ہیں اور وہ جو چاہے کرسکتا ہے ،ہر قسم کی مرادیں ہر جگہ سے اس سے مانگنی چاہییں، یہ بھی شرک ہے جو  ناجائز  اور حرام ہے۔مشکل کشا، حاجت روا اور متصرف فی الامور ذات صرف اللہ تعالیٰ کی ہے۔

2. کسی بھی غیرِ خدا سے ظاہری استعانت کرنا، یعنی جو عادتاً انسان کے بس میں ہوتا ہے، مثلاً: روپیہ، پیسہ ،کپڑا، وغیرہ دینا، یہ چیزیں اگر کسی سے مانگی جائیں تو یہ درست ہے۔

لہذا نعرۂ حیدری کے جواب میں’’یا علی‘‘  کہنا جائز نہیں ہے،  اس لیے کہ اگر اس سے مقصود حضرت علی رضی اللہ عنہ کو  پکار کر ان سے استغاثہ ہو  اور یہ اعتقاد ہو کہ ان کے پاس ہر قسم کے اختیارات ہیں، جو چاہیں جس کی چاہیں مدد کرسکتے ہیں تو  یہ  کفر اور شرک ہے۔ اگر یہ اعتقاد نہ ہو  تب  یہ موہمِ شرک ضرور ہیں،  نیز اللہ تعالیٰ کو  اس کی صفتِ علی سے پکارنا مقصود ہو تو  بعینہ ان الفاظ  (یاعلی) سے نہ پکارا جائے؛ اس لیے  کہ  ’’یاعلی ‘‘ ایک خاص باطل نظریے اور عقیدے کی علامت بن گیا ہے، یعنی یہ کلمہ  ایک باطل فرقے کا شعار ہے ، بلکہ  بعض اہلِ باطل تو اس کلمہ ’’ یا علی ‘‘ کو اُلوہیتِ علی (رضی اللہ عنہ) کے عقیدے سے  کہتے ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ کو پکارنے کی نیت سے بھی یہ کلمہ کہنا درست نہیں ہے۔

مزيد تفصيل و دلائل كے ليے ذيل ميں ايك فتوے كا لنك ديا جارها هے، اسے ملاحظه فرمائيں:

’’یا محمد‘‘ اور ’’یا علی مدد‘‘ کہنے کا حکم

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404100717

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں