بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 جمادى الاخرى 1446ھ 14 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

وارث معلوم نہ ہونے کی صورت مرحوم کے مال سے اس کا فدیہ ادا کرنا


سوال

ہمارے پاس ایک آدمی تھا جو پچاس سال سے ہمارے پاس رہ رہا تھا، اس کا دنیا میں کوئی ہے یا نہیں، یہ نہ اس کو پتا تھا نہ ہمیں پتا تھا، اب اس کی وفات ہوگئی ہے، اس نے  میرے چچا کے پاس پچیس ہزار روپے رکھوائےتھے، اس کے ذمہ کچھ نمازیں رہ گئیں ہیں، اور یہ پتا نہیں کہ کتنی نمازیں؟ اب ہم ان پچیس ہزار میں سے ان نمازوں کا فدیہ ادا کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے بارے میں پوری تفصیل سے رہنمائی چاہیے اور اس میں جو حیلہ کیا جاتا ہے اس کا طریقہ بھی سمجھا دیجیے اور اس میں جو وکیل ہوتا ہے میت کی طرف سے وہ اس میں تصرف کرسکتا ہے کہ نہیں اگر وہ مستحق ہے؟ اور ایک بات میرے چچا کے پاس میت کا جو ترکہ ہے اس میں میرے چچا کسی دوسرے آدمی کو وکیل بنا سکتے ہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ شخص کے قریبی یا دور کے کسی بھی وارث کا علم نہ ہو (ددہیال، ننہیال میں سے کسی رشتہ دار کا علم نہ ہو)، وہ شادی شدہ بھی نہ ہو تو اس کے سارے مال کا مستحق وہ ہوگا جس کے لیے اس نے موت کے بعد سارے مال کی وصیت لکھی ہو۔ اور اگر کسی کے لیے وصیت نہیں لکھی ہو  تو اس مال کا مصرف فقراء و مساکین ہیں۔

نیز اگر آپ کے چچا مذکورہ شخص کے ترکہ اور امانت کے مال سے اس کی نمازوں کا فدیہ ادا کرنا چاہتے ہیں تو اگر   اس کے مال میں سے  اتنی رقم موجود ہے کہ جس سے اس کا  فدیہ ادا ہوجائے گا تو اس کا فدیہ ادا کردیا جائے، ہر نماز  کا فدیہ ایک صدقہ فطر کی مقدار کے برابر  (مثلاً پونے دو کلو گندم) ہوتا ہے۔ اور  فدیہ فرض نماز اور وتر کا  دونوں کا ادا کیا جائے گا۔

اور اگر اس کے مال میں گنجائش نہ ہو تو فقہاءِ کرام نے ایسے شخص کے لیے حیلۂ اسقاط کی گنجائش ذکر کی ہے جس کی جائز صورت یہ ہے: 

مرحوم کے  فدیہ کی نیت سے کچھ رقم کسی غریب و نادار مستحقِ زکوٰۃ کو دے کر اس کو اس رقم کا اس طرح مالک بنادیں کہ اگر وہ مستحق رقم واپس کرنے کے بجائے خود استعمال کرلے تو اس پر  کوئی اعتراض نہ ہو  اور وہ مستحق شخص یہ سمجھتا ہو کہ اگر میں یہ رقم مرحوم کے  ورثاء وغیرہ   کو واپس نہ کروں تو انہیں واپس لینے کا اختیار نہیں ہے، پھر وہ مستحق کسی قسم کے جبر  اور دباؤ کے بغیر اپنی خوشی سے وہ رقم اس شخص یعنی ورثاء یا اس کے ذمہ دار  کو واپس کردے اور پھر ورثاء  اسی مستحق کو یا کسی اور مستحق کو اسی طرح مذکورہ طریقے کے مطابق وہ رقم دے دیں اور وہ بھی اپنی خوش دلی سے  انہیں واپس کردے، اس طرح باربار  ورثاء  یہ رقم کسی مستحق کو  دیتے رہیں اور وہ اپنی خوشی و مرضی سے واپس کرتا رہے، یہاں تک کہ مرحو م کی قضا شدہ نمازوں کے فدیہ کی مقدار ادا ہوجائے تو اس طرح فدیہ ادا ہوجائے گا اور اب وہ رقم سب سے آخر میں جس نادار ومستحق شخص کو ملے گی وہی اس رقم کا مالک ہوگا اور اسے ہر طرح اس رقم کو خرچ کرنے کا اختیار ہوگا، نیز آخر میں ورثاء  کا رقم کو آپس میں تقسیم کرنا یا کسی غنی و مال دار اور غیر مسکین کا اس رقم کو لینا جائز نہ ہوگا، اور نہ ہی  اس آخری مستحق شخص پر رقم کی واپسی کے لیے کسی قسم کا دباؤ وغیرہ ڈالنا درست ہوگا۔ 

ورثاء  کی ناداری کی بنا پر اور مالی گنجائش نہ ہونے کی صورت میں مذکورہ تفصیلی شرائط کے ساتھ حیلہ کرنے کی گنجائش ہے، اس کے علاوہ حیلہ اسقاط کی دیگر مروجہ صورتیں جائز نہیں۔ 

(تفصیل کے لیے دیکھیں : مفتی شفیع رحمہ اللہ کا رسالہ "حیلہ اسقاط" جو جواہر الفقہ کے نئے طبع کی جلد اول میں شامل ہے، اور نظام الفتاوی ص ۱۱۷ ج٦)

حیلہ اسقاط کا حکم

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2 / 338):

"ورابعها الضوائع مثل ما لا ... يكون له أناس وارثونا".

"(قوله: ورابعها فمصرفه جهات إلخ) موافق لما نقله ابن الضياء في شرح الغزنوية عن البزدوي من أنه يصرف إلى المرضى والزمنى واللقيط وعمارة القناطر والرباطات والثغور والمساجد وما أشبه ذلك. اهـ.

ولكنه مخالف لما في الهداية والزيلعي أفاده الشرنبلالي أي فإن الذي في الهداية وعامة الكتب أن الذي يصرف في مصالح المسلمين هو الثالث كما مر.

وأما الرابع فمصرفه المشهور هو اللقيط الفقير والفقراء الذين لا أولياء لهم فيعطى منه نفقتهم وأدويتهم وكفنهم وعقل جنايتهم كما في الزيلعي وغيره.

وحاصله: أن مصرفه العاجزون الفقراء، فلو ذكر الناظم الرابع مكان الثالث ثم قال: وثالثها حواه عاجزونا ورابعها فمصرفه إلخ لوافق ما في عامة الكتب".

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144203201332

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں