بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

والدین کو خدمت کی ضرورت ہوتے ہوئے ان کی اجازت سے بیرونِ ملک جانا جائز ہے یا نہیں؟


سوال

میں روزگار کے لیے بیرون ملک جانا چاہتا ہوں،  اس بارے میں کیا حکم ہے؟ میرے والدین کافی بوڑھے ہیں، لیکن میں ابھی بھی گھر سے دور ملازمت کرتا ہوں، تین ماہ بعد گھر جاتا ہوں، میرے والد کی بھی خواہش ہے کہ میں باہر چلا جاؤں؛ تا کہ گھر کے حالات کچھ بہتر ہو جائیں، نہ ہی میں شادی شدہ ہوں۔

جواب

بصورتِ مسئولہ اگر وطن میں موجود ملازمت سائل کے گزارہ کے لیے کافی ہے، تو اس کے لیے بیرونِ ملک ملازمت یا تجارت کے لیے جانا مناسب نہیں ہے، تاہم اگر وہ ملازمت کافی نہ ہورہی ہو، نیز والدین کی خواہش اور ان کی اجازت بھی ہے کہ ان کا بیٹا بیرونِ ملک ملازمت کے لیے چلا جائے، تو پھر جانا جائز ہے۔

البتہ غیر مسلم ممالک میں جانے سے اجتناب کیا جائے؛ کیوں کہ وہاں گناہوں میں پڑ کر دین وایمان ضائع ہونے کاخطرہ زیادہ ہے،  اس کے بجائے کسی مسلم مملکت کا انتخاب کیا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔

مزید دیکھیے:

غیر مسلم مملکت میں تعلیم، رہائش، نوکری یا کسی اور غرض سے جانے کا حکم

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"وعن نافع قال: كنت أجهز إلى الشام، وإلى مصر. فجهزت إلى العراق فأتيت إلى أم المؤمنين عائشة، فقلت لها: يا أم المؤمنين كنت أجهز إلى الشام فجهزت إلى العراق، فقالت: لا تفعل ما لك ولمتجرك؟ فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: إذا ‌سبب ‌الله ‌لأحدكم ‌رزقا من وجه فلا يدعه حتى يتغير له أو يتنكر له.

(‌إذا ‌سبب ‌الله ‌لأحدكم ‌رزقا من وجه) : بأن جعل رزق أحدكم مسببا عن وصول تجارته إلى محل مثلا (فلا يدعه) أي: لا يترك ذلك السبب أو الرزق (حتى يتغير له) أي بعدم الربح (أو يتنكر له) : بخسران رأس المال، فأو للتنويع، وقيل أو للشك قال الطيبي رحمه الله: وفيه أن من أصاب من أمر مباح خيرا وجب عليه ملازمته، ولا يعدل منه إلى غيره إلا لصارف قوي لأن كلا ميسر لما خلق له."

(ص:١٩٠٥، ج:٥، کتاب البیوع، باب الکسب وطلب الحلال، ط: دار الفکر، بیروت)

البحر الرائق میں ہے:

"وأما سفر التجارة، والحج فلا بأس بأن يخرج بغير إذن، والديه؛ لأنه ليس فيه خوف هلاكه حتى لو كان السفر في البحر لا يخرج بغير إذنهما ثم إنما يخرج بغير إذنهما للتجارة إذا كانا مستغنيين عن خدمته أما إذا كان محتاجين فلا كذا في التجنيس."

(ص:٧٨، ج:٥، کتاب السیر، ط: دار الکتاب الإسلامي)

بدائع الصنائع   میں ہے:

"والأصل أن كل ‌سفر لا يؤمن فيه الهلاك، ويشتد فيه الخطر لا يحل للولد أن يخرج إليه بغير إذن والديه؛ لأنهما يشفقان على ولدهما فيتضرران بذلك، وكل ‌سفر لا يشتد فيه الخطر يحل له أن يخرج إليه بغير إذنهما إذا لم يضيعهما؛ لانعدام الضرر."

(ص:٩٨، ج:٧، کتاب السیر، فصل في بيان من يفترض عليه الجهاد، ط: دار الکتب العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144508100968

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں