بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

غیر مسلم مملکت میں تعلیم، رہائش، نوکری یا کسی اور غرض سے جانے کا حکم


سوال

تعلیم، تجارت، کاروبار، نوکری، طلبِ رزق يا کسی بھی غرض سے غیر اسلامی ملک جانے کی کیا شرعی حیثیت ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں غیراسلامی مملکت میں جاکر رہائش اختیار کرنے کا حکم زمانہ کے حالات اور جانے والے کی غرض اور مقصد کے بدلنے سے بدلتا رہتا ہے، چناں چہ: 

(1) اگر کوئی شخص اپنے وطن میں معاشی مسائل سے دوچار ہوجائے اور تلاشِ بسیار کے بعد بھی اپنے اسلامی ملک میں معاشی وسائل دست یاب نہ ہوسکیں، تو ایسے حالات میں اگر اس شخص کو کسی غیرمسلم مملکت میں جائز ملازمت مل جائے، تو اس کے لیے وہاں جانا اور رہائش اختیار کرنا جائز ہے، بشرط یہ کہ اسے اس بات کا اطمینان ہو کہ وہ وہاں جاکر عملاً دینی احکام کا پابند رہے گا، اور غیرمسلم مملکت کے مروجہ منکرات اور فواحش سے اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکے گا۔

(2) اس کے برخلاف اگر کسی شخص کو اپنے ملک اور شہر میں اس قدر معاشی وسائل اور کاروبار یا نوکری میسر ہے جن سے وہ بآسانی اپنے شہر کے معیار کے مطابق زندگی گزارنے پر قادر ہے، اس کے باوجود صرف معیارِ زندگی بلند کرنے اور عیش وعشرت کی زندگی گزارنے کے لیے وہ کسی غیراسلامی ملک جاتا ہے، تو بلا ضرورت وہاں جانا کراہت سے خالی نہیں ہے، بلکہ یہ عمل غیراسلامی مملکت میں رائج شدہ فواحش ومنکرات میں اپنے آپ کو دھکیلنے کے مترادف ہے، اور بلاوجہ اپنی اسلامی اور اخلاقی حالت کو خطرے میں ڈالنا ہے، جو کسی بھی طرح درست نہیں ہے۔

(3) اگر کوئی شخص اس نیت سے غیراسلامی سلطنت جائے کہ وہاں کے غیرمسلموں کو اسلام کی دعوت دےگا، یا جو مسلمان ادھر مقیم ہیں انہیں دین کے صحیح رخ سے آگاہ کرے گا، تو ایسے شخص کے لیے وہاں جانا جائز ہے،بشرط یہ کہ اسے اپنے نفس پر اطمینان حاصل ہو۔

(4) ایک قسم ان لوگوں کی بھی ہے جو صرف دار الحرب کو دار الاسلام پر ترجیح دیتے ہوئے کسی غیرمسلم مملکت میں رہائش کو پسند کرتےہیں، اور بسا اوقات صرف دوسرے مسلمانوں پر اپنی بڑائی کا اظہار مقصد ہوتا ہے، یا پھر اپنے معاش ومعیشت اور ظاہری وضع، قطع میں کفار کی مشابہت اختیار کرنے یا ان جیسا بننے کےلیے وہاں جاتے اور رہائش اختیار کرتے ہیں، ان تمام مقاصد کے لیے وہاں جانا قطعاً جائز نہیں ہے۔

(5) علاج کے لیے غیراسلامی مملکت جانے کا حکم یہ ہےکہ اگر اپنے وطن میں علاج ممکن نہ ہوپائے،تو ضرورتاً  اس وجہ سےکسی غیرمسلم مملکت جانابلاشبہ جائز ہے۔

(6) تعلیم کے لیے جانے کا حکم یہ ہے کہ اگر دینی یا دنیاوی تعلیمی ضروریات اپنے ملک میں پوری ہوسکتی ہوں، تو صرف وہاں کی ڈگری حاصل کرکے اپنا معیارِ زندگی اور اپنی حیثیت بلند کرنے لیے کسی غیراسلامی ملک اور وہاں کے فحش وعریاں ماحول میں جانا اپنے ایمان و اخلاق کے لیے باعث خطرہ ہونے کی وجہ سے درست نہیں ہے، نیز غیرمسلم مملکت جانا اگر انہی مقاصد کے لیے ہو،جو نمبر 4 میں مذکورہیں، تب تو وہاں جانا اور رہائش اختیار کرنا بالکل ہی درست نہیں ہے۔

تاہم اگر مطلوبہ تعلیمی ضروریات اپنے وطن میں پوری نہ ہوسکتی ہوں، تو ان کے حصول کے لیے غیرمسلم مملکت جانے کی گنجائش ہے، بشرط یہ کہ اسے اس بات کا اطمینان ہو کہ وہ وہاں پر بذاتِ خود اپنےدین پر کاربند رہ سکے گا، اور وہاں کے منکرات وفواحش سے اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکے گا۔

(تفصیل کے لیے فتاویٰ بیّنات جلد سوم، صفحہ: ٣٧١پر موجود ایک فتویٰ بعنوان: ’’مغربی ممالک کی شہریت لینے کا حکم‘‘ ملاحظہ کیجیے۔)

سورة الملكمیں ہے:

"هُوَ الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ ذَلُوْلًا فَامْشُوْا فِیْ مَنَاكِبِهَا وَ كُلُوْا مِنْ رِّزْقِهٖ وَ اِلَیْهِ النُّشُوْرُ."

ترجمہ: ’’وہ ایسا (مُنعم) ہے جس نے تمہارے لئے زمین کو مسخر کردیا سو تم اس کے رستوں میں چلو (پھرو) اور خدا کی روزی میں سے کھاؤ (پیو) اور اسی کے پاس دوبارہ زندہ ہو کر جانا ہے۔‘‘

(الآية: ١٥)

سنن الترمذی   میں ہے:

"روى سمرة بن جندب، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: لا ‌تساكنوا ‌المشركين، ولا تجامعوهم، فمن ساكنهم أو جامعهم فهو مثلهم."

(ص:٤٢٢، ج:١، أبواب السير، ‌‌باب ما جاء في كراهية المقام بين أظهر المشركين، ط: رحمانية)

بذل المجهود في حل أبي داؤد میں ہے:

"عن جرير بن عبد الله قال: بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم سرية إلى خثعم، فاعتصم ناس منهم بالسجود، فأسرع فيهم القتل، قال أي جرير: فبلغ ذلك النبي صلى الله عليه وسلم فأمر لهم بنصف العقل، وقال: أنا بريء من كل مسلم يقيم بين أظهر المشركين. قالوا: يا رسول الله، لم؟ قال: لا تتراءى ناراهما.

قوله: (لا تتراءى ناراهما) قال الخطابي : في معناه ثلاثة وجوه، قيل: معناه لا يستوي حكمهما، وقيل: معناه أن الله فرق بين داري الإسلام والكفر، فلا يجوز لمسلم أن يساكن الكفار في بلادهم، حتى إذا أوقدوا نارا كان منهم بحيث يرى نارهم، ويرون ناره إذا أوقدت، وقيل: معناه لا يتسم المسلم بسمة المشرك ولا يشبه به في هديه وشكله."

(ص:٢٣٩، ج:٩، كتاب الجهاد، باب على ما يقاتل المشركون، ط: مركز الدراسات الإسلامية)

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح   میں ہے:

"وعن نافع قال: كنت أجهز إلى الشام، وإلى مصر. فجهزت إلى العراق فأتيت إلى أم المؤمنين عائشة، فقلت لها: يا أم المؤمنين! كنت أجهز إلى الشام فجهزت إلى العراق، فقالت: لا تفعل! ما لك ولمتجرك؟ فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: إذا سبب الله لأحدكم رزقا من وجه ‌فلا ‌يدعه ‌حتى ‌يتغير ‌له ‌أو ‌يتنكر ‌له.

(فقالت: لا تفعل!) أي هذا التجهيز والتبديل، فإن الله لا يغير ما بقوم حتى يغيروا ما بأنفسهم، لا سيما والمسافة بعيدة وهي مشعرة إلى الحرص المذموم. (ما لك ولمتجرك؟) : اسم لمكان من التجارة، أي: أي شيء وقع لك وما حصل لمتجرك من الباعث على العدول منه إلى غيره؟ أوصل إليك خسران منه، حتى يصدك في محل تجارتك الذي عودك الله الربح فيه، وما هو كذلك لا ينبغي العدول عنه، (فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:  إذا سبب الله لأحدكم رزقا من وجه) : بأن جعل رزق أحدكم مسببا عن وصول تجارته إلى محل مثلا (فلا يدعه) أي: لا يترك ذلك السبب أو الرزق (حتى يتغير له) أي بعدم الربح (أو يتنكر له) : بخسران رأس المال، فأو للتنويع، وقيل أو للشك قال الطيبي رحمه الله: وفيه أن من أصاب من أمر مباح خيرا وجب عليه ملازمته، ولا يعدل منه إلى غيره إلا لصارف قوي لأن كلا ميسر لما خلق له."

(ص:١٩٠٥، ج:٥، کتاب البیوع، باب الکسب وطلب الحلال، ط: دار الفکر، بیروت)

البحر الرائق   میں ہے:

"وفي شرح أدب القاضي للشهيد حسام الدين أسباب الجرح كثيرة منها ركوب بحر الهند؛ لأنه مخاطرة بنفسه ودينه ومنها ‌سكنى ‌دار ‌الحرب وتكثير سوادهم وعددهم لأجل المال ومثله لا يبالي بشهادة الزور ومنها التجارة في قرى فارس؛ لأنهم يطعمونهم الربا وهم يعلمون ولو شهد قبل أن يستشهد تسمع شهادته بعد ذلك."

(ص:٨٩، ج:٧، کتاب الشهادات، ‌‌باب من تقبل شهادته ومن لا تقبل، ط: دار الكتاب الإسلامي)

تكملة رد المحتار میں ہے:

"قوله: (وركوب بحر) أي بحر الهند، وهو البحر الأحمر المعروف الآن ببحر السويس بأنه إذا ركب البحر إلى الهند فقد خاطر بنفسه ودينه، ومنها ‌سكنى ‌دار ‌الحرب وتكثير سوادهم وعددهم وتشبهه بهم لينال بذلك مالا ويرجع إلى أهله غنيا، فإذا كان لا يبالي بما ذكر لا يأمن أن يأخذ من عرض الدنيا فيشهد بالزور."

(ص:٥٦٤، ج:٧، کتاب الشهادات، باب القبول وعدمه، ط: ايج ايم سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144509100238

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں