بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ولد الزنا (زنا سے پیدا ہونے والے بچے) کا زانی کے ترکہ میں حق


سوال

اگر زنا سے بچہ پیدا ہو جائے تو کیا بچے کا زانی کے مال حصہ ہوگا ؟

جواب

زنا سے پیدا ہونے والے بچے کا نسب زانی سے ثابت نہیں ہوتا ہے،اس لیے  ولد  الزنا (زنا سے پیدا ہونے والے بچے) کا زانی کے ترکے  میں کوئی حق و حصہ نہیں ہوتا ہے، کیوں کہ ترکہ میں حصہ ہونے کے  لیے دونوں کے درمیان باپ، بیٹے کا رشتہ ہونا  چاہیے، جب کہ نسب ثابت ہوئے بغیر باپ ، بیٹے کا رشتہ ثابت ہونا ممکن نہیں ہے، لہٰذا چوں کہ ولد الزنا زانی کے حق میں بمنزلہ اجنبی کے ہے؛ اس لیے  ان دونوں کو ایک دوسرے کے ترکہ میں سے کچھ حصہ نہیں ملے گا۔

ہاں!  اگر زانی اپنی مزنیہ سے نکاح کرلے اور نکاح کے چھ  مہینے بعد اس حمل سے بچہ پیدا ہو تو وہ بچہ ثابت النسب ہوگا، لیکن اگر نکاح کے بعد  چھ  ماہ گزرنے سے پہلے ہی بچہ پیدا ہوگیا تو پھر اس بچہ کا اس زانی سے نسب ثابت نہیں ہوگا اور وہ بچہ ولد الزنا ہی کہلائے گا،  البتہ اس صورت میں  اگر زانی اس بچے کے باپ ہونے کا اقرار کرلیتا ہے اور زنا کا ذکر نہیں کرتا تو بھی اس بچے کا نسب اس سے ثابت ہوجائے گا۔

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک ملاحظہ کیجیے:

زنا کے بعد اسی لڑکی سے نکاح اور پیدا ہونے والے بچے کے نسب کا حکم

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (5/ 2038):

’’وعن أبي أمامة قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول في خطبته عام حجة الوداع: «إن الله قد أعطى كل ذي حق حقه فلا وصية لوارث». رواه أبو داود و ابن ماجه و زاد الترمذي: «الولد للفراش و للعاهر الحجر و حسابهم على الله».

 (رواه أبو داود، وابن ماجه، وزاد الترمذي: «الولد للفراش») بفتح الفاء أي: للأم، في النهاية: و تسمّى المرأة فراشًا؛ لأنّ الرجل يفترشها. أي: الولد منسوب إلى صاحب الفراش، سواء كان زوجًا أو سيّدًا، أو واطئ شبهة، و ليس للزاني في نسبة حظ إنما الذي جعل له من فعله استحقاق الحد، و هو قوله: («وللعاهر الحجر») قال التوربشتي: يريد أن له الخيبة، وهو كقولك: له التراب، والذي ذهب إلى الرجم فقد أخطأ لأن الرجم لايشرع في سائره، وكل ذي حق حقه يدل على أن لا نصيب لأحد بعدما بين الله الأنصباء إلا للأجنبي فلا حظ للأول فكيف بالثاني؟  وكان من حق الظاهر أن يقول: لا حق للعاهر ثم له التراب، فوضع الحجر موضعه ليدل بإشارة النص على الحد وبعبارته على الخيبة، فكان أجمع من لو قيل التراب. ...  قال الطيبي -رحمه الله-: " الضمير في حسابهم إذا رجع إلى العاهر بحسب الجنسية جاز إذا أريد بالحجر الحد، وإذا أريد مجرد الحرمان فلا، ويمكن أن يقال: إنه راجع إلى ما يفهم من الحديث من الورثة والعاهر، وكان المعنى أن الله تعالى هو الذي قسم أنصباء الورثة بنفسه فأعطى بعضنا الكثير وبعضنا القليل، وحجب البعض وحرم البعض، و لايعرف حساب ذلك وحكمته إلا هو، فلاتبدلوا النص بالوصية للوارث وللعاهر، وعلى هذا قوله: وحسابهم على الله حال من مفعول أعطى، وعلى الأول من الضمير المستقر في الخبر في قوله: " «وللعاهر الحجر» ". وفي الجامع الصغير للسيوطي: " «الولد للفراش وللعاهر الحجر» " رواه الشيخان، وأبو داود، والنسائي، عن ابن مسعود، وعن ابن الزبير، وابن ماجه، عن عمر، وعن أبي أمامة - رحمه الله - تعالى، وقد عد من المتواتر‘‘.

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212200197

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں