میرے بھائی کے ایک لڑکی سے ناجائز تعلقات تھے، وہ دونوں ملے اور حمل ٹھہر گیا، پھر ان دونوں کا نکاح ہوگیا، لیکن اب بعض لوگ کہہ رہے ہیں کہ حمل کی حالت میں نکاح صحیح نہیں تھا، اسلامی نکتہ نظر سے رہنمائی فرمائیں، نیز یہ بھی بتائیں کہ بچہ کا نسب ثابت ہوگا یا نہیں؟
نکاح سے پہلے اجنبی لڑکی سے بات چیت، ملاقات کرنا ناجائز، اور اس سے ہم بستری کرنا ’’زنا‘‘ اور شدید گناہ تھا، اگر آپ کے بھائی سے یہ سرزد ہوا تو سخت گناہ کا کام کیا، اس پر خوب توبہ و استغفار کرنی چاہیے۔
باقی زنا کرنے کی وجہ سے حمل ٹھہرنے کے بعد زانی سے نکاح کرنے کی صورت میں نکاح منعقد ہوگیا تھا (کیوں کہ حاملہ سے نکاح کی ممانعت اس وقت ہے جب وہ کسی کے نکاح میں حاملہ ہوئی ہو اور پھر عدت میں ہو تو اس سے نکاح جائز نہیں ہے)؛ لہذا لوگوں کا یہ کہنا درست نہیں ہے کہ نکاح منعقد نہیں ہوا۔
پھر اگر نکاح کے چھ مہینے بعد اس حمل سے بچہ پیدا ہو تو وہ بچہ ثابت النسب ہوگا، لیکن اگر نکاح کے بعد چھ ماہ گزرنے سے پہلے ہی بچہ پیدا ہوگیا تو پھر اس بچہ کا اس زانی سے نسب ثابت نہیں ہوگا اور وہ بچہ ولد الزنا ہی کہلائے گا۔ البتہ اس صورت میں اگر زانی اس بچے کے باپ ہونے کا اقرار کرلیتا ہے اور زنا کا ذکر نہیں کرتا تو بھی اس بچے کا نسب اس سے ثابت ہوجائے گا۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 49):
"لو نكحها الزاني حل له وطؤها اتفاقاً، والولد له ولزمه النفقة.
(قوله: والولد له) أي إن جاءت بعد النكاح لستة أشهر، مختارات النوازل، فلو لأقل من ستة أشهر من وقت النكاح لايثبت النسب، ولايرث منه إلا أن يقول: هذا الولد مني، ولايقول: من الزنى، خانية. والظاهر أن هذا من حيث القضاء، أما من حيث الديانة فلايجوز له أن يدعيه؛ لأن الشرع قطع نسبه منه، فلايحل له استلحاقه به، ولذا لو صرح بأنه من الزنى لايثبت قضاءً أيضاً، وإنما يثبت لو لم يصرح؛ لاحتمال كونه بعقد سابق أو بشبهة حملاً لحال المسلم على الصلاح، وكذا ثبوته مطلقاً إذا جاءت به لستة أشهر من النكاح؛ لاحتمال علوقه بعد العقد، وأن ما قبل العقد كان انتفاخاً لا حملاً، ويحتاط في إثبات النسب ما أمكن". فقط و الله أعلم
فتوی نمبر : 144108200724
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن