بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وبا کی وجہ سے اذان دینا، دین کا حصہ نہیں


سوال

 اگر کوئی دینی کام حدیث اور قرآن سے ثابت نہ ہو اور اگر ہو بھی تو ضعیف حدیث سے تو  کیا اس کو کرنے کی گنجائش اس بنا پر کہ دوسرے مسلک کے لوگ کرتے ہیں، حنفی اصول فقہ میں حدیث و قرآن کی روشنی میں جائز ہے؟ آج کل کرونا کی وجہ سے اذانیں دینے پر کچھ حنفی دیوبندی گنجائش نکال رہے ہیں؛ اس لیے راہ نمائی فرمائیں!

جواب

واضح رہے کہ کوئی بھی ایسا عمل جو قرآن و حدیث سے ثابت نہ ہو، اسے دین کا حصہ سمجھنا، یا سنت  یا مستحب قرار دینا درست نہیں، اسی طرح جس عمل کی اصل قرآن و سنت سے ثابت نہ ہو، اور قرونِ اولیٰ میں بھی اس کی ضرورت پیش آئی ہو، لیکن انہوں نے وہ کام نہ کیا ہو، بعد کے لوگ اسے دین کا حصہ سمجھ کر کریں، یا اس کا التزام کریں اور نہ کرنے والوں کو غلط سمجھیں یہ اس عمل کو بدعت بنادیتاہے۔

البتہ فضائلِ اعمال کے باب میں محدثین کے نزدیک ضعیف احادیث سے بھی فضیلت کا ثبوت قابل قبول ہوتا ہے، ملحوظ رہے کہ عوام الناس میں ضعیف حدیث کے حوالے سے جو  تصور  ہے کہ یہ من گھڑت و جھوٹی ہوتی ہے، غلط ہے، محدثین کی اصطلاح میں جھوٹی و من گھڑت روایت کے لیے " موضوع"  کا لفظ مستعمل ہے،  جب کہ ضعیف حدیث اس حدیث کو کہا جاتا ہے جس کی سند میں سقم ہو یا متن میں اضطراب ہو، یا ان کے علاوہ دیگر معتبر  وجوہاتِ ضعف میں سے کوئی وجہ پائی جاتی ہو ، عوام الناس اس فرق سے نا آشنا ہونے کی وجہ سے ضعیف کو بھی موضوع روایت سمجھ لیتے ہیں، جوکہ درست نہیں۔

وبا  یا بلا کے خاتمہ کے لیے اذان دینے کے حوالے سے فقہِ حنفی میں کوئی روایت نہیں ملتی،  اور نہ ہی یہ اذان قرآن و حدیث سے ثابت ہے، لہٰذا اسے سنت یا مستحب کہنا یا سمجھنا درست نہیں ہے، البتہ بعض شافعی فقہاءِ کرام سے شدائد اور مصائب کے مواقع پر اذان دینے کی اجازت منقول ہے، لہذا اس عمل کو سنت یا مستحب سمجھے بغیر بطورِ علاج اختیار کرنے کی گنجائش نکلتی ہے، تاہم یہ اذان مساجد  میں یا مخصوص وضع کے التزام کے ساتھ نہ دی جائے۔

چوں کہ یہ عمل دین کا حصہ، عبادت اور سنت یا مستحب نہیں، بلکہ بطورِ علاج اختیار کیا جاتا ہے، لہذا اس کا زیادہ سے زیادہ رتبہ  مباح کا ہے،  یعنی  جس کے اختیار کرنے یا نہ کرنے پر ثواب یا گناہ کا ترتب نہ ہو۔اگر کوئی ان شرائط کا لحاظ رکھتے ہوئے اذان دیتا ہے تو اسے موردِ الزام بھی  نہیں ٹھہرانا چاہیے۔

’’کفایت المفتی‘‘  (از مفتی اعظم ہند حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب  رحمہ اللہ) میں ہے :

’’سوال : دفعِ وباء کے لیے اذان دینا جائز ہے یا نہیں؟  تنہا یا گروہ کے ساتھ مسجد میں یا گھر میں؟

جواب : دفعِ وباء کے لیے اذانیں دینا تنہا یا جمع ہوکر بطورِ علاج اور عمل کے مباح ہے، سنت یا مستحب نہیں‘‘۔  (۳ / ۵۲، دار الاشاعت)

جامعہ ہٰذا کے سابقہ فتاویٰ میں ہے:

’’سوال:

کسی عظیم حادثے کے نازل ہونے کے بعد مسجدوں میں رات کے وقت اذانیں دی جائیں؛ تاکہ اس کی برکت سے بلا رفع ہوجائے، کیا اس کا کوئی شرعی ثبوت ہے؟

جواب:

صورتِ مسئولہ میں احناف سے اس بارے میں کوئی روایت منقول نہیں، البتہ شوافع کے اقوال سے مسنون معلوم ہوتاہے، جس پر علامہ شامی رحمہ اللہ نے کہاہے کہ ایسے مواقع پر اذان دی جائے تو ہمارے نزدیک بھی اس کی گنجائش ہے؛ لما في رد المحتار:

’’ولا بعد فيه عندنا...‘‘ الخ (کتاب الصلاة، باب الأذان، مطلب في المواضع التي یندب لها الأذان في غیر الصلاة، (1/385) ط: سعید)

البتہ یہ اذان مسجدوں میں نہ دی جائے؛ تاکہ اذانِ صلاۃ کے ساتھ التباس نہ ہوجائے۔ فقط واللہ اعلم

کتبہ: محمد عبدالسلام چاٹ گامی                                                                       الجواب صحیح: ولی حسن‘‘

مزید تفصیل کے  لیے دیکھیے:

کورونا کی وبا کے خاتمہ کے لیے اذان دینا

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144108200918

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں